بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم / بیٹوں کا مکان لیتے ہوئے والد کے ساتھ رقم ملانا


سوال

 میرانام بکر   ہے،  میرا سوال جائیداد کے متعلق اور میرے والدین کی طرف سے ہے جو کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، بچوں کی تفصیل کچھ یوں ہے : 

١-  زید (بیٹا - شادی شدہ )

٢-  ہندہ (بیٹی - شادی شدہ )

٣-  بکر (بیٹا - شادی شدہ ) 

٤- خالد (بیٹا - شادی شدہ )

٥-  عمر (بیٹا - شادی شدہ ) 

٦- عبداللہ (بیٹا - شادی شدہ ) 

٧-  عبدالرحمٰن (بیٹا - غیر شادی شدہ )

٨- زینب (بیٹی - غیر شادی شدہ ) 

جائیداد کی تفصیل کچھ  یوں  ہے :

1-  ایک کمرے کا فلیٹ۔

2-  120 گز کا ایک منزلہ مکان۔

 عرض یہ ہے کہ ایک کمرے کا فلیٹ شادی کی بعد  زید کو دے دیا گیا جس کی قیمت تقریباً  تین لاکھ روپے کی تھی اور جس کو بعد ازاں زید نے  تقریباً پانچ لاکھ روپے میں فروخت کر کے اپنے لیے دوسرا گھر خرید لیا، جہاں فی الوقت مقیم ہے ۔

120  گز کا مکان جب خریدا گیا اس وقت گھر کی کل قیمت پچاس لاکھ تھی اور اس میں بکر نے تقریباً دس لاکھ جب کہ عبدالرحمٰن نے تقریباً تین لاکھ روپے دیے تھے۔  اس وقت زید اور  ہندہ کے علاوہ باقی سب اسی 120  گز کے مکان میں مقیم ہیں۔  براۓ کرم شریعت کی رو سے اس جائیداد کی تقسیم میں راہ نمائی فرمائیں!

نوٹ: سوال میں تمام نام فرضی ہیں، جو اصل اور حقیقی افراد کی ترجمانی کررہے ہیں۔

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا ان کی جائیداد میں شرعی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو ان سے مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".  (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بیوی کو آٹھویں حصہ کے بقدر دے دے  اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

باقی صورتِ مسئولہ میں اگر  والد نے اپنا مکان اپنے بیٹے زید کو صرف رہنے کے لیے دیا تھا، مالک بناکر نہیں دیا تھا تو وہ مکان بدستور والد ہی کی ملکیت میں برقرار تھا، بعد ازاں جب زید نے والد کی اجازت سے اس کو فروخت کردیا اور اس میں کچھ پیسے ملا کر دوسرا مکان خرید لیا تو اس میں جس قدر پیسے والد کے مکان کے تھے،مکان کی موجودہ قیمت میں اسی تناسب سے والد کا حصہ ہوگا۔ اور اگر والد نے مذکورہ مکان زید کو گفٹ کردیا تھا اور اس کو اس میں قبضہ اور مالکانہ تصرف کا حق دے دیا تھا تو چوں کہ وہ مکان بیٹے کی ملکیت ہوگیا اور اس کے بعد جو اس نے دوسرا مکان خریداوہ اسی کی ملکیت ہوگا۔ اگر یہی صورت ہوکہ زید کو یہ مکان مالکانہ حقوق کے ساتھ دے دیا تھا تو اب بقیہ جائیداد تقسیم کرتے ہوئے زید کو دیے گئے حصے کو منہا کرکے دوسروں کے مقابلے میں اتنا کم دیا جاسکتاہے، کیوں کہ زید کو دوسروں کے مقابلے میں پہلے ہی جائیداد میں سے والد کی طرف سے ہدیہ مل چکاہے۔

نیز 120 گز والے مکان کو خریدتے وقت جو دو بیٹوں نے پیسے ملائے تھے اگر وہ بطورِ قرض کے ملائے تھے (یعنی اس کی صراحت کی تھی کہ یہ قرض ہے) تو  والد سے اس قدر رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اور اگر شراکت کے طور پر ملائے تھے تو مکان کی موجودہ قیمت میں اسی تناسب سے ان کا حصہ ہوگا، اور اگر وہ رقم انہوں نے والد کو تعاون کے طور پر دی تھی تو اب اس کا مطالبہ نہیں کرسکتے اور وہ مکمل مکان والد ہی کا شمارہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں