بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم اور ایک بیٹے کوکم حصہ دینا


سوال

ایک شخص کے تین بیٹے ہوں، جس میں سے دو صالح اور ایک عیّاش ہو، نشئی ہو حتی کہ نشہ کو پورا کرنے کیلئے گھر کی اشیاء تک فروخت کرنے سے نہ  ڈرتا ہواور اسی نشے کے عوض وہ جیل بھی کاٹتا ہو۔ تو اب اس شخص کو فکر لاحق ہوئی کہ میرے مرنے کے بعد جب وراثت تینوں میں تقسیم ہوئی تو نشئی اپنا پورا حصہ بیچ ڈالے گا نشہ کو پورا کرنے کے لئے ،جو کہ میری عمربھر کی محنت کو ضائع کرنے والی بات ہے اور بعد ازاں یہ اپنا حصہ بیچ کر گلی گلی محتاج ہو جائے گا اور بھیک مانگا شروع کر دے گاجیسا کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نشئ اپنی تمام جائیداد بیچ ڈالتے ہیں اور پھر سڑک پر آجاتے ہیں ، اس نیت سے کیا وہ شخص مرنے سے پہلے اپنے دونوں صالح بیٹوں کے نام جائیداد تقسیم کر سکتا ہے نشئ بیٹے کو خارج کر کے؟؟ یا پھر تین حصے کر کے دو تو نام لگوا دے دونوں کے اور تیسرا حصہ امانتاً صالح بیٹے کے پاس رکھوا دے کہ اگر تیسرے نے نشے سے توبہ کر لی تو یہ اس کا حصہ اسے دے دینا اور اگر بدستور قائم رہا تو آپس میں دونوں بھائی بانٹ لینا۔ کیا ایسی سوچ اور تقسیم جائز ہے ؟؟ کیونکہ یہاں کسی کو اسکے حصے سے جبراً محروم نہیں کیا جا رہا بلکہ اسی کی بھلائی کیلئے کل کو سب بیچ باچ کر سڑک پر بھیک نہ مانگے ۔

جواب

جائیداد بقیہ دونوں بیٹوں میں تقسیم کرنا درست ہے اور نشہ کی لت میں مبتلا بیٹے کو صرف گزارہ کے بقدر دیا جائے تاکہ  حق تعالی کی نافرمانی  میں مال صرف نہ کرے۔اگر نشہ کرنے والے بیٹے کا حصہ دوسروں کے ہاتھ امانت رکھا گیا اور اسی حالت میں باپ کا انتقال ہوگیا تو وہ حصہ وراثت میں تقسیم ہوگا اور بقیہ دونوں بیٹے بھی اس میں شریک ہوں گے۔


فتوی نمبر : 143701200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں