بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں تقسیمِ جائیداد کا طریقہ


سوال

زید اپنی حیات میں اپنا مال  و جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، اگر ہبہ کرتا ہے تو اس میں بیٹے اور بیٹیوں کا حصہ برابر ہوتا ہے اور اگر وہ میراث کے طریقے پر تقسیم کرے اور لڑکی کا دوگنا لڑکے کو دے تو کیا یہ جائز  ہے؟ اور افضل صورت کی نشان دہی کردیں۔ 

جواب

زندگی میں جائیداد کی تقسیم درست ہے،البتہ  شرعی اعتبار سے  یہ تقسیمِ وراثت نہیں، بلکہ ہبہ(گفٹ)ہے اور ہبہ (گفٹ) کے سلسلے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ اولاد کے درمیان برابری کی جائے، لہذا بیٹوں اور بیٹیوں کوبرابر  برابر حصہ دیا جائے،  کسی شرعی سبب کے  بغیر کمی بیشی نہ کی جائے، البتہ اگراولاد میں سے بعض فرماں بردار،نیک، تابع دار اوردین دارہیں یا مالی اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت کمزور حیثیت رکھتے ہیں تواس صورت میں بعض کو بعض پر ترجیح دی جاسکتی ہے، لہذا مذکورہ صورتِ حال میں زید  کے لیے بہتر  اور افضل یہ ہے کہ جتنا حصہ بیٹوں کو دے ، اتنا ہی بیٹیوں کو بھی دے،   تاہم اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو خدمت، فرماں برداری، دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے زیادہ دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا. فَقَالَ : " أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ ؟ " قَالَ : لَا. قَالَ : " فَارْجِعْهُ ".

(صحيح البخاري،كتاب الهبة، باب الهبة للولد، رقم الحديث: ٢٥٨٦)

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

(الدر مع الرد ٥/ ٦٩٦ ط: سعید)  فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144106200779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں