بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں تقسیم


سوال

 میری امی کی ملکیت 3100000 ہیں، امی جان سلامت ہیں، ابوجان بھی ہیں، اور میرے 3 سگے بھائی ہیں، 3 سوتیلے اور 5سگی بہنیں، 6 سوتیلی اور 1سوتیلی ماں، اب میری امی جان کی خواہش ہے کہ پیسے شرعی تقسیم ہوں، کیا طریقہ کار ہے؟

جواب

مذکورہ رقم کی مالکہ آپ کی والدہ ہیں، ان کی زندگی میں اس رقم کی تقسیم ان  پر لازم نہیں ہے، اور نہ ہی اولاد کو تقسیم کے مطالبہ کا حق ہے، تجربات کی روشنی میں آپ کی والدہ کے لیے یہ مشورہ ہے کہ اگر کوئی ناگزیر صورت نہ ہو تو زندگی میں اپنی ملکیت کو مکمل طور پر تقسیم نہ کریں، بسا اوقات اس طرح تقسیمِ جائیداد کے بعد والدین انتہائی کس مہ پرسی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اولاد کی جانب سے انہیں کئی ایک تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔

تاہم اگر تقسیم ہی کرنا پیشِ نظر ہو تو  پھر بھی بہتر یہ ہے کہ اپنی اور اپنے شوہر کی ضرورت کے لیے کچھ حصہ اپنی صواب دید پر پس انداز کرلیں، اور باقی رقم حقیقی اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کریں،اس تقسیم میں بیٹا اور بیٹی دونوں کو برابر دیا جائے گا، بلا ضرورت کسی کو کم یا زیادہ دینا درست نہیں، اگر کوئی بیٹا، یا بیٹی برے کردار کے حامل، نافرمان، یا غلط کاریوں کے عادی ہوں، اور اندیشہ ہو کہ وہ مال اللہ تعالی کی نافرمانی میں خرچ کریں گے، تو ان کو کچھ نہ دینا چاہیے۔ حقیقی اولاد کے علاوہ جو افراد ہیں، انہیں والدہ اپنی صواب دید کے مطابق جو دینا چاہیں دے سکتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں