بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنی جائیداد میں سے چار بیٹوں کو حصہ دینے اور ایک بیٹے کو محروم رکھنے کا حکم


سوال

دو کنال زمین ہے زید کی اور اس کے پانچ بیٹے ہیں، تقسیم کرتے وقت چار بیٹوں کا حق دے اور پانچویں بیٹے کو حق نہ دے۔ اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم میراث نہیں کہلاتی، بلکہ یہ ہبہ (گفٹ) ہے، لہٰذا اس پر ہبہ کے احکام لاگو ہوں گے، میراث کے احکام لاگو نہیں ہوں گے، میراث تو میت کا ترکہ ہے جو آدمی کی موت کے بعد  ہی تقسیم کیا جاتاہے، لہٰذا زندگی میں زید جو جائیداد تقسیم کرے گا اس پر کسی کا شرعی حصہ نہیں ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ کی رو سے زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو وہ  اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہے اتنا رکھ لے کہ خدانخواستہ شدید ضرورت کے وقت محتاجی نہ ہو، اور بہتر یہ ہے کہ بیوی کے لیے جائیداد کا آٹھواں حصہ رکھے، اس کے بعد  باقی کل جائیداد کو تمام اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) میں برابر برابر تقسیم کردے، بلا وجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں کسی قسم کا فرق کرے، ورنہ بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینے یا اولاد میں سے بعض کو دینے اور بعض کو محروم رکھنے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے، لہٰذا زید کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد میں سے اپنے پانچوں بیٹوں کو برابر برابر حصہ دے، اور اگر زید کی کوئی بیٹی ہو تو اسے بھی بیٹوں کے برابر حصہ دینا چاہیے، البتہ اولاد میں سے اگر کسی کو زیادہ نیک یا فرماں بردار ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ دے دے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن کچھ کو دینے اور کسی کو محروم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں