بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد میں تقسیم


سوال

میری عمر 84 سال ہے،  میرے تین بیٹے, دو بیٹیاں اور ایک بیوی ہے میرے پاس ایک مکان جس کی کل مالیت تقریباً 90 لاکھ روپے ہے،  میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جب کہ ایک بیٹی کا اپنا مکان ہے اور بقیہ دو بیٹے میرے ساتھ رہتے ہیں، ساتھ رہنے والا ایک بیٹا گھر کے تمام بل ادا کرتا ہے جب کہ دوسرا بیٹا ہمارے علاج معالجے اور ہمارے کھانے پینے کا اور دیگر ضروریات کا اہتمام کرتا ہے، میری خواہش ہے کہ میں اپنا ذاتی مکان اپنے ساتھ رہنے والے دونوں بیٹوں کے نام کر دوں، لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ بقیہ اولاد کو بھی محروم نہ کیا جاۓ؛ تاکہ میرا ایک بیٹا اور بیٹیاں اپنا اپنا چھوٹا سا گھر کرسکیں:

1-  اگر میں اپنے ایک بیٹے کو پندرہ لاکھ روپے( جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے) اور بیٹیوں کو ساڑھے سات لاکھ روپے بطورِ گفٹ کے دے دوں تو کیا یہ میرے لیے جائز ہوگا ؟

2-  کیا میری زندگی میں میری کوئی اولاد حصے کا مطالبہ کر سکتی ہے؟

3-  کیا میں اولاد میں سے کسی بھی اولاد کو اس کی کسی خوبی کی بنیاد پر نواز سکتا ہوں؟ 

جواب

واضح رہےکہ زندگی میں اولاد میں تقسیم کی جانے والی جائیداد ہبہ ہے، وراثت نہیں ہے اور اولاد کو ہبہ کرنے کے متعلق حکم یہ ہے کہ تمام اولاد(بیٹے اور بیٹیوں) میں برابری کی جائے، اولاد میں سے کسی کو ضرر رسانی کی نیت سے دوسری اولاد کو زائد نہ دیا جائے، البتہ کسی  کو کسی معقول وجہ کی بنا پر بہ نسبت اوروں کے کچھ زیادہ دیا جاسکتا ہے یعنی کسی کے زیادہ شریف یا زیادہ دین دار  یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا غریب ہونے کی بنا پر بہ نسبت اوروں کے کچھ زیادہ دینا جائز ہوگا۔ نیز اولاد میں سے جسے جو چیز دے اس پر اسے باقاعدہ قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور تقسیم کر کے دے، صرف نام کرنا کافی نہ ہوگا، مالکانہ قبضہ اور تصرف دیے بغیر صرف نام کردینے سے ہبہ درست نہیں ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالوں کے جواب یہ ہیں:

1- اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو برابری کی بنیاد پر دیں، ہبہ میں بیٹیوں کو بیٹوں سے آدھا دینا جائز نہیں ہے۔

2- آپ کی زندگی میں آپ کی اولاد میں سے کسی کا بھی اپنے آپ کو  آپ کی جائے داد میں حصے کا مستحق سمجھ  کر  آپ سے مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

3-اولاد میں سے کسی کو ضرر رسانی کی نیت سے، دوسری اولاد کو زائد نہ دیں۔ البتہ کسی  کو کسی معقول وجہ کی بنا پر بہ نسبت اوروں کے کچھ زیادہ دیا جاسکتا ہے یعنی کسی کی زیادہ شرافت، و دین داری کے، یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر یا غریب ہونے کی بنا پر بہ نسبت اوروں کے کچھ زیادہ دینا جائز ہوگا۔

"وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة". (رد المحتار على الدر المختار، کتاب الوقف، ۴/۴۴۴، الناشر: دار الفكر-بيروت)

"كل يتصرف في ملكه كيف ما شاء".

(مجلة الأحكام العدلية، الكتاب العاشر: الشركات، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول: في بيان بعض قواعد أحكام الأملاك، ۱/۲۳۰، الناشر: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں