بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندیق کا حکم


سوال

زندیق کا حکم کیا ہے؟

جواب

زندیق دو طرح کے ہوتے ہیں:

1۔ جو معروف ہوں اور اپنے اعتقادات کی طرف دعوت دیتے ہوں۔

2۔ جو معروف نہ ہوں اور نہ ہی اپنے اعتقادات کی طرف داعی ہوں۔

دوسری قسم میں تفصیل یہ ہے :

1۔ اگر وہ پیدائش سے ہی اس عقیدے پر تھا تو اس کا حکم عام کافروں کا ہے۔

2۔ اگر وہ مسلمان تھا پھر زندیق ہوگیا تو وہ مرتد کے حکم میں ہے، اگر مسلمان نہ ہو تو قتل کیا جائے گا۔

3۔ اگر وہ ذمی تھا اور زندیق ہوگیا تو اسے اپنی حالت پر چھوڑا جائے گا۔

پہلی  قسم یعنی اگرزندیق معروف اور داعی ہو اور وہ گرفتاری سے قبل توبہ کرلے تو اس کی توبہ قابل قبول ہے، لیکن اگر وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اسے قتل کیا جائے گا۔

حاشية رد المحتار على الدر المحتار - (4 / 199)

" مطلب : الزنديق إذا أخذ قبل التوبة يقتل ولا تؤخذ منه الجزية۔ تنبيه: قال في الفتح: قالوا: لو جاء زنديق قبل أن يؤخذ فأخبر بأنه زنديق وتاب تقبل توبته، فإن أخذ ثم تاب لا تقبل توبته ويقتل ؛ لأنهم باطنية يعتقدون في الباطن خلاف ذلك فيقتل ولا تؤخذ منه الجزية اهـ وسيأتي في باب المرتد أن هذا التفصيل هو المفتى به"۔

حاشية رد المحتار على الدر المحتار - (4 / 241)

' ثم بين حكم الزنديق فقال: اعلم أنه لا يخلو إما أن يكون معروفاً داعياً إلى الضلال أو لا. والثاني ما ذكره صاحب الهداية في التجنيس من أنه على ثلاثة أوجه إما أن يكون زنديقاً من الأصل على الشرك أو يكون مسلماً فيتزندق أو يكون ذمياً فيتزندق، فالأول يترك على شركه إن كان من العجم أي بخلاف مشرك العرب فإنه لا يترك. والثاني يقتل إن لم يسلم ؛لأنه مرتد۔ وفي الثالث يترك على حاله ؛ لأن الكفر ملة واحدة اهـ

 والأول أي المعروف الداعي لا يخلو من أن يتوب بالاختيار ويرجع عما فيه قبل أن يؤخذ أو لا، والثاني يقتل دون الأول اهـ وتمامه هناک '۔

واضح رہے کہ مذکورہ سزا کے اجرا کا حق حکومتِ وقت کو حاصل ہے ؛ ہر فردِ رعیت کو یہ حق حاصل نہیں ہے ؛ کیوں کہ اس سے کئی مفاسد اور خرابیاں لازم آتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں