بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بد کاری کی عادت ختم کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟


سوال

ایک شخص نماز بھی پڑھتا ہے، تہجد بھی پڑھتا ہے، لیکن زنا بھی کرتا ہے، اس سے  بچنے کی تدبیر بتائیں؟

جواب

’’زنا‘‘   انتہائی قبیح فعل اور  بدترین گناہ ہے، ’’کنز العمال‘‘  میں ایک حدیث ہے کہ ”شرک کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑا نہیں جس کو آدمی اُس شرم گاہ میں رکھتا ہے جو  اس کے لیے حلال نہیں ہے“.   مسلمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے اَحکامات بجالانے کے ساتھ   جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچنا ضروری ہے، جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے، اسی طرح زنا حرام ہے، اس سے بچنا فرض ہے، اس لیے مذکورہ شخص کو چاہیے کہ جس طرح وہ نماز کا اہتمام کرتاہے؛ کیوں کہ یہ اللہ پاک کا حکم ہے، اور اس کے چھوڑنے پر باز پرس ہوگی، اسی طرح بدکاری بھی بڑا گناہ اور جرم ہے، جس کے بارے میں حساب ہوگا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اَعمال کے حساب و کتاب کے منظر کو ذہن میں رکھے، نیز درج ذیل روایت کے مضمون کو بھی ذہن نشین رکھے، امید ہے کہ اس سے بھی اسے اس گناہ سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! ﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے  دیجیے!   لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی ﷺ نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ!  وہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا:  کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی ﷺ نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا:  اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔

 پھر نبی ﷺ نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ:  ”اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔(مسند احمد)

 لہٰذا مذکورہ شخص کو  چاہیے وہ نماز اور تہجد خشوع وخضوع سے جاری رکھے،  نماز  کے  تمام فرائض، واجبات، سنن ومستحبات کا خیال رکھے،   اس لیے نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے؛ یقیناً جب تمام آداب اور نماز کے حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے ادا کی جائے گی تو اسے گناہوں سے روکنے پر آمادہ کرے گی۔

گناہ سے بچنے کے لیے مضبوط ہمت اور پختہ ارادہ چاہیے، اور اس کے ساتھ ساتھ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کی جائے، اللہ والوں کی صحبت میں رہنے سے ایسے موذی امراض سے جلد خلاصی نصیب ہوتی ہے، نیز اس کے ساتھ چند اعمال کا اہتمام کیا جائے:

(1) شادی شدہ نہیں تو جلد از جلد نکاح کرلے۔ (2) ورنہ کثرت سے روزے رکھے۔ (3)  ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت بنائے۔ (4) تنہائی میں وقت نہ گزاریں۔ (5) جب تک یہ عادت نہ چھوٹے روزانہ دو  رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ سے اس قبیح فعل سے چھٹکارے کی دعا مانگی جائے (6) کثرت سے اس دعا  کا ورد کیا جائے:  "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ الْهُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی"(7)  کثرت  کے ساتھ   سید الاستغفار پڑھنے کا اہتمام کیا جائے ، ان شاء اللہ یہ عادت جلد ہی چھوٹ جائے گی۔    سید الاستغفار یہ ہے: 

"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَيَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ". (صحیح بخاری)

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 129):
"543 - وعن أبي أمامة: «أن فتى من قريش أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي في الزنا! فأقبل القوم عليه وزجروه، فقالوا: مه مه، فقال: " ادنه "، فدنا منه قريبًا، فقال: " أتحبه لأمك؟ " قال: لا والله، جعلني الله فداك! قال: "ولا الناس يحبونه لأمهاتهم". قال: " أفتحبه لابنتك؟ ". قال: لا والله يا رسول الله، جعلني الله فداك! قال: "ولا الناس يحبونه لبناتهم". قال: "أفتحبه لأختك؟" قال: لا والله يا رسول الله، جعلني الله فداك! قال: "ولا الناس يحبونه لأخواتهم". قال: " أتحبه لعمتك؟". قال: لا والله يا رسول، جعلني الله فداك! قال: "ولا الناس يحبونه لعماتهم". قال: " أتحبه لخالتك؟". قال: لا والله يا رسول الله جعلني الله فداك! قال: "ولا الناس يحبونه لخالاتهم". قال: فوضع يده عليه، وقال: "اللهم اغفر ذنبه، وطهر قلبه، وحصن فرجه". قال: فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء»". رواه أحمد والطبراني في الكبير، ورجاله رجال الصحيح". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں