بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تیمم کے لیے زمین کی پاکی کا کیسے پتا چلے؟ اور زمین کیسے پاک کی جائے؟


سوال

تیمم کے لیے پاک مٹی کا ہونا کیسے پتا چلے گا، جب کہ نماز کے لیے مناسب جگہ ہونا ضروری ہے؟ اگر اس جگہ کبھی کوئی پیشاب کر چکا ہو اور خشک ہو جانے پر نماز پڑھ لی گئی  تو جب نماز ادا ہو سکتی ہے تو تیمم کے لیے مٹی کیسے پاک کی جائے؟

جواب

اگر زمین پر کوئی ناپاک چیز لگ جائے اور پھر اس طرح خشک ہوجائے کہ اس سے نجاست کا اثر اور بو زائل ہوجائے توحدیث شریف کی بنا پر ایسی زمین خشک ہونے سے اور نجاست کے اثر کے زائل ہوجانے سے بذاتِ خود پاک ہوجاتی  ہے؛  لہذا اس پر نماز پڑھنا درست ہے۔

تیمم کے لیے شرعی طور پر یہ شر ط  ہے کہ جس مٹی سے تیمم کیاجائے وہ ایسی پاک مٹی ہو کہ پاک ہونے کے ساتھ پاک کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہو،اور اس میں کسی قسم کی نجاست کا کوئی اثر نہ ہو، جیساکہ قرآن کریم میں {صعیداًطیبا} کی قید لگائی گئی ہے،  یہاں زمین بذاتِ خود خشک ہونے سے پاک ہوچکی، لیکن پاک کرنے کی صلاحیت موجود نہیں،  اس لیے اس جگہ پر نماز درست ہے،  لیکن اس مٹی سے تیمم کرنا درست نہیں ۔

البتہ اگر اس مٹی پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح وہ زمین  نماز  کے  ساتھ  تیمم کے حق میں بھی پاک ہوجائے گی ۔

بہرحال اگر مٹی کا ناپاک ہونا معلوم نہیں ہے تو اس سے تیمم کرسکتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ یہ علم ہو کہ وہ ناپاک نہیں ہے۔ بغیر دلیل کے کسی چیز کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ 

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله : بطاهر ) متعلق بيتيمم يعني يشترط لصحة التيمم طهارة الصعيد؛ لقوله تعالى: { فتيمموا صعيداً طيباً} ولا طيب مع النجاسة حتى لو تيمم بغبار ثوب نجس لايجوز إلا إذا وقع ذلك الغبار عليه بعد ما جف ولا بد أن تكون طهارته مقطوعاً بها حتى لو تيمم بأرض قد أصابتها نجاسة فجفت وذهب أثرها لم يجز في ظاهر الرواية، والفرق بين التيمم منها وجواز الصلاة عليها أن الجفاف مقلل لا مستأصل، وقليلها مانع في التيمم دون الصلاة، ويجوز أن يعتبر القليل مانعاً في شيء دون شيء، كقليلها في الماء مانع دون الثوب، كذا في البدائع. وسيأتي تمامه في الأنجاس إن شاء الله تعالى. وظاهر كلامهم أن الأرض التي جفت نجسة في حق التيمم طاهرة في حق الصلاة، والحق أنها طاهرة في حق الكل، وإنما منع التيمم منها لفقد الطهورية كالماء المستعمل طاهر غير طهور، وكان ينبغي للمصنف أن يقول: بمطهر؛ ليخرج ما ذكرنا كما عبر به في منظومة ابن وهبان، وللحديث الوارد من قوله صلى الله عليه وسلم: {جعلت لي الأرض مسجداً وطهوراً} بناءً على أن الطهور بمعنى المطهر، وقد تقدم الكلام فيه وفي المحيط والبدائع، ولو تيمم اثنان من مكان واحد جاز؛ لأنه لم يصر مستعملاً؛ لأن التيمم إنما يتأدى بما التزق بيده لا بما فضل، كالماء الفاضل في الإناء بعد وضوء الأول ا هـ" . (2/65)

الجواہرۃ النیرۃ میں ہے :

"(قوله: وإذا أصابت الأرض نجاسة فجفت بالشمس وذهب أثرها جازت الصلاة على مكانها.

وقال زفر والشافعي رحمهما الله: لاتجوز؛ لأنه لم يوجد المزيل، ولهذا لم يجز التيمم منها، ولنا قوله عليه السلام: { ذكاة الأرض يبسها}، وقيد بالأرض احترازاً عن الثوب والحصير وغير ذلك؛ فإنه لايطهر بالجفاف بالشمس ويشارك الأرض في حكمها كل ما كان ثابتاً فيها كالحيطان والأشجار والكلأ والقصب ما دام قائماً عليها، فإنه يطهر بالجفاف، فإذا قطع الحشيش والخشب والقصب وأصابته نجاسة لايطهر إلا بالغسل، وأما الحجر فذكر الخجندي أنه لايطهر بالجفاف.

وقال الصيرفي: إذا كان أملس فلا بد من الغسل، وإن كان يشرب النجاسة فهو كالأرض والحصا بمنزلة الأرض ( قوله: فجفت بالشمس) التقييد بالشمس ليس بشرط، بل لو جفت بالظل فحكمه كذلك (قوله: وذهب أثرها) الأثر اللون والرائحة والطعم، وإذا ثبت أنها تطهر بالجفاف وعاودها الماء فعن أبي حنيفة روايتان: أحدهما تعود نجسة، وهو اختيار القدوري والسرخسي، وفي الرواية الأخرى لاتعود نجسة، وهو اختيار الإسبيجابي. وعلى هذا الخلاف إذا وقع من ترابها شيء في الماء فعند الأولين ينجس وعلى الثاني لاينجس، (قوله: ولم يجز التيمم منها)؛ لأن طهارة الصعيد ثبت شرطها بنص القرآن فلايتأدى بما ثبت بالحديث، وهو قوله عليه السلام: {ذكاة الأرض يبسها} ولأن الصلاة تجوز مع يسير النجاسة، ولايجوز الوضوء بماء فيه يسير النجاسة والتيمم قائم مقام الوضوء". (1/145)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں