بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی نماز پڑھوانا


سوال

1- کیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کسی مسلمان سے زبردستی نماز پڑھوائی گئی؟

2- یا کسی مسلمان عورت کو  عام محضر میں سنگسار یا رجم کیا گیا؟

3- یا کوئی کافر یا مشرک دارالاسلام میں ہوا ہو اور مار دیا گیا ہو؟ یا جہاد میں کسی واجب القتل شخص یا اشخاص کو قتل کیا گیا ہو؟

جواب

1-  واضح رہے کہ  نماز ایک اہم  دینی فریضہ ہے، اس کی ادائیگی ہرمسلمان مردوعورت   پرفرض ہے،نماز چھوڑنے والے کے متعلق  قرآن واحادیث میں سخت ترین وعیدات وارد  ہوئی ہیں۔

نیز یہ  بھی واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں  حضورِ اکرم ﷺ نے   امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے  تین درجات بیان فرمائے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو کسی برائی میں مبتلا دیکھتا ہے تو اگر اس میں یہ استطاعت ہے کہ و ہ  اس برائی کو ہاتھ سے روک سکتا ہے تو اس پر ہاتھ سے روکنا ضروری ہے اور اگر وہ ہا تھ سے نہیں روک سکتا، لیکن اس میں یہ استطاعت ہے کہ وہ زبان سے روک سکتا ہے تو اس پر زبان سے روکنا لازم ہے اور اگر کسی میں اس کی بھی استطاعت نہیں ہے تو آخری درجہ یہ ہے کہ وہ اس برائی  کو دل میں برا جانےیعنی اس برائی پر  کسی بھی اعتبار سے قطعی طور پر راضی نہ ہو اور اس آخری درجہ کو رسول اللہ  ﷺ نے  ایمان کاکم زور درجہ قرار دیا ہے، یعنی کسی برائی کو اپنے دل سے بھی برانہ سمجھے تو اسے اپنے ایمان کو ٹٹولنا چاہیے۔

   اس حدیث کی شرح میں محدثین نے یہ لکھا  ہے کہ اس حدیث میں امرِ اول یعنی  ’’فلیغیره بیده‘‘(ہاتھ سے برائی روکنے اور اصلاح) کا خطاب امراء اور سلاطین کو ہے  اور امرثانی یعنی’’فبلسانه‘‘ کا خطاب علماء کو ہے اور امر ثالث یعنی ’’فبقلبه‘‘ کاخطاب عام مؤمنین کو ہے  اور ہر شخص پر اپنی استطاعت کے بقدر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم وضروری ہے، اس کا تارک گناہ گار ہو گا ۔

                مذکورہ تفصیل کی رو سے یہ بات واضح  طور پر معلوم ہو گئی کہ   اگر کسی سلطنت کا حکمراں     اپنی مملکت میں موجود لوگوں میں امورِ واجبہ میں کوتاہی دیکھتا ہے اور  ان امور کا ترک دیکھتا ہے  یا کسی منکر کام میں مبتلا دیکھتا  ہے تو چوں کہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ  اپنی رعیت کو ہاتھ کے ذریعے  ان امورِ واجبہ کے اہتمام اور امورِ منکرہ سے باز آنے کا پابند بنائے ؛ اس لیے اس پر شرعاً لازم ہے کہ خود اور اپنے نائبین  کے ذریعے اس کا اہتمام کروائے،  اگر قدرت کے باوجود بھی ایسا نہیں کیا تو ایک شرعاً لازمی امر کا تارک شمار ہوگا،  جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا۔

           باقی رہا حضورِ اکرم ﷺ کا کسی کو زبردستی نماز  پڑھوانا تو اس بارے میں واضح رہے کہ حضور ﷺکے دور میں تو نماز کا  اس قدر اہتما م تھا کہ  اگر کوئی   مسلمان بیما رہوتا، لیکن وہ دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر مسجد میں آسکتا تھا تو وہ بھی مسجد  میں جماعت کی نماز کو نہیں چھوڑتا تھا حتی کہ منافقین بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔

لیکن اس کے باوجود بھی آپﷺ چونکہ  صاحب شریعت  تھے اور  مملکت کے  حاکم بھی تھے اس لئے     آپ ﷺنے نماز میں کوتاہی کرنے والے کے متعلق سخت ترین ارشادات و  احکام جاری فرمائے تھے ۔

جیسا کہ حدیث میں ہے   کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺنے  محض جماعت ميں كوتاہی کرنے والوں کے متعلق فرمایا  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ  میرادل چاہتا ہے کہ میں ان لوگوں کے  گھروں کو جاکر جلا دوں کہ جو    نماز میں کوتاہی کرتے ہیں  لیکن مجھے ان گھروں میں موجود بچوں اور بوڑھے مرد وعورتوں کا احساس ہے۔

اسی طرح آپ کایہ فرمان بھی ہے کہ اگر تمہا  را بیٹا  دس سال کی عمر کو پہنچ جائے اور وہ نماز نہ پڑھے تو  نماز نہ پڑھنے پر مارو۔

ان جیسے ارشادت   کے پیش نظر فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی  کہنے کے باوجود نماز نہیں پڑھتی  تو شوہر اس کو اس بناء پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے مار بھی سکتا ہے اسی طرح والد اپنی اولاد کو بھی مار کر نماز پڑھواسکتا ہے اور اسی طرح   حاکم وقت بھی   زبردستی نماز پڑھنے کا لوگوں کو مکلف بنا سکتا ہے۔

المفہم لمااشکل  من  تلخیص کتاب  مسلم  لعلامۃ القرطبي ؒمیں ہے:

(قوله: مَن رَأَى مِنكُم مُنكَرًا، فَليُغَيِّرهُ بِيَدِهِ) هذا الأمرُ على الوجوب؛ لأنَّ الأمرَ بالمعروفِ والنَّهيَ عن المنكر من واجباتِ الإيمان، ودعائمِ الإسلام، بالكتابِ والسنة وإجماع الأمة، ولا يُعتَدُّ بخلافِ الرافضة في ذلك؛ لأنَّهم إمَّا مكفَّرون؛ فليسوا من الأمة، وإمَّا مبتدعون؛ فلا يُعتَدَّ بخلافهم؛ لظهور فِسقهم؛ على ما حقَّقناه في الأصول.

(باب تغییر المنکر،ج:۱،ص:۱۳۳،ط: دار ابن كثير)

فتح القوی المتین للنوویؒ میں ہے:

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "مَن رأى منكم منكراً فليُغيِّره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعفُ الإيمان" رواه مسلم.                        

1هذا الحديث مشتملٌ على درجات إنكار المنكر، وأنَّ مَن قدرعلى التغيير باليد تعيَّن عليه ذلك، وهذا يكون من السلطان ونوابه في الولايات العامة، ويكون أيضاً من صاحب البيت في أهل بيته في الولايات الخاصة۔۔۔۔۔

(ج:۱،ص:۱۱۷،ط: دار ابن القيم)

حدیث شریف ميں ہے:

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لقد هممت أن آمر فتيتي أن يجمعوا حزم الحطب، ثم آمر بالصلاة فتقام، ثم أحرق على أقوام لا يشهدون الصلاة»

(سنن الترمذی،ج:۱،ص:۴۲۲)

حدیث شریف ميں ہے:

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفرقوا بينهم في المضاجع ".

(سنن ابي داود ،ج ،۱،ص:۱۸۷،ط: دار الفكر) 

۲۔واضح رہے کہ حضوراکرم ﷺ کے زمانہ میں    بعض وہ عورتیں کہ جن سے زنا کا ارتکاب ہوگیا تھا  ان  کو آپ ﷺنے سنگسار کروایا تھا     البتہ عورت کو سنگسار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی میدان میں ایک گڑھا کھوداجائے گا اوراسی میں عورت کوکھڑاکرکے رجم کیا جائے گا تاکہ اس کا ستر واضح نہ ہو اور یہ بات بھی واضح رہے کہ اس وقت مسلمانوں کے سربراہ وحاکم آپ ﷺ تھے توآپ کے حکم سے  سنگسار کیا گیا تھا اور اب بھی حکم شرعی یہی ہے کہ اس طرح کی  حدود وغیرہ کے اجراء کا اختیار ہرشخص کے پاس نہیں ہے بلکہ یہ   اسلامی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ زَنَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا زَنَتْ وَهِيَ حُبْلَى فَدَعَا وَلِيَّهَا، فَقَالَ: «أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا» ، فَفَعَلَ، فَجَاءَ بِهَا فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ عُمَرُ: تُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ رَجَمْتَهَا؟، قَالَ: «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ كَانَ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ تَعَالَى؟»

(مستخرج ابی عوانہ ،باب بیان الاباحۃ،ج:۴،ص:۱۳۳،ط: دار المعرفة بيروت)

حدیث  شریف میں ہے:

حَدَّثَنِي عَبْدُ الله بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلى الله عَليهِ وسَلم فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ, فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ الله إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ, وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَيْضًا فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بِالزِّنَى, فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ الله طَهِّرْنِي فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرْدُدَنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ, فَوَالله إِنِّي لَحُبْلَى، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم: ارْجِعِي حَتَّى تَلِدِي، فَلَمَّا وَلَدَتْ جَاءَتْ بِالصَّبِيِّ تَحْمِلُهُ فِي خِرْقَةٍ, فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ الله هَذَا قَدْ وَلَدْتُ, قَالَ: فَاذْهَبِي فَأَرْضِعِيهِ، ثُمَّ افْطِمِيهِ، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ جَاءَتْ بِالصَّبِيِّ فِي يَدَيْهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ, فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ الله قَدْ فَطَمْتُهُ, فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم بِالصَّبِيِّ فَدُفِعَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ, وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ, فَجُعِلَتْ فِيهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهَا, فَأَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِحَجَرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا, فَتَلَطَّخَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَسَبَّهَا, فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم سَبَّهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ: مَهْ يَا خَالِدُ, لَا تَسُبَّهَا, فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ, فَأَمَرَ بِهَا فَصُلِّيَ عَلَيْهَا وَدُفِنَتْ.

(سنن الدارمی ،ج:۱،ص:۵۵۵،ط: دار البشائر (بيروت)

بدائع الصنائع ميں ہے:

وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا۔۔۔۔

(فصل فی شرائط الجواز،ج:۷،ص:۵۷،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

فیشترط الامام لاستیفاء الحدود۔

(ج:۶،ص:۵۴۹،ط:سعید)

۳۔واضح رہے کہ کافر کی  دو قسمیں ہیں :

الف۔ ذمی کافر :جو اپنے      دین پر ہوتا  ہے لیکن  معاہدہ کے ذریعے مسلمانوں کی حفاظت میں ہوتا ہے ایساشخص جب دارالاسلام میں  بحیثیت ذمی  آجائے  تو اس  شخص کی جان ومال کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہے  حضورﷺنے فرمایا کہ  جو شخص  کسی ذمی کوقتل کرے گا   وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا لہٰذا ایسے شخص کو نہ حضور ﷺنے قتل کروایا ہے اور نہ ہی اس کو شرعا قتل کرنے کی اجازت ہے۔

ب۔ حربی کافر:اگر  حربی کافر دارالاسلام میں    وقت کی اسلامی حکومت کی اجازت کے بغیر داخل ہوجاتا ہے تو یقینا ایسا شخص جاسوس ہی ہوگا  اور  حربی جاسوس کو آپﷺنے قتل کروایا ہے  ۔اس لئے  ایسے حربی کافر شخص جو دارالاسلام میں بغیر  اجازت یعنی بغیر ویزے کے داخل ہوجائے کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر بدون قتل کوئی تدبیر اس کی فہمائش کےلئے کارگر نہ ہو تو اسے قتل کرنا جائز ہے لیکن اس قتل کا اختیار مسلمان حاکم وقت کو ہے  ہرکس وناکس کونہیں ہے ۔

  حدیث شریف میں ہے:

عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« من قتل معاهدا بغير حق لم يرح رائحة الجنة وإنه ليوجد ريحها من مسيرة أربعين عاما ».

(السنن الكبرى للبيهقيؒ،ج:۸،ص:۱۳۳،ط:مجلس دائرة المعارف النظامية )

حديث شريف میں ہے:

''عن ابن سلمة بن الأكوع عن أبيه قال : أتى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عين من المشركين وهو فى سفر قال فجلس فتحدث عند أصحابه ثم انسل فقال النبى -صلى الله عليه وسلم- :« اطلبوه فاقتلوه ». قال : فسبقتهم إليه فقتلته وأخذت سلبه''۔

(السنن الكبرى للبيهقيؒ، باب الجاسوس من اہل الحرب،ج:۹ ،ص:۱۴۷ ،ط:مجلس دائرة المعارف النظامية )

عمدة القاری شرح صحیح البخاری  للعینیؒ میں ہے:

وأقوال الْمُتَقَدِّمين وَقَالَ الْأَوْزَاعِيّ فَإِن كَانَ كَافِرًا يكون ناقضا للْعهد وَقَالَ أصبغ الجاسوس الْحَرْبِيّ يقتل وَالْمُسلم وَالذِّمِّيّ يعاقبان إِلَّا أَن يظاهرا على الْإِسْلَام فيقتلان۔

(باب الجاسوس،ج:۱۴،ص:۲۵۶،ط: دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع ميں ہے:

وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا،

(فصل فی شرائط  جوازاقامۃ الحدود،ج: ۷،ص:۵۷،ط:دار الكتب العلمية)

۴۔ واضح رہے کہ  متعدد احادیث مبارکہ   میں اس  کاذکر واضح طور پر موجود ہے کہ آپ ﷺنے  جہاد میں واجب القتل اشخاص کو قتل کروایا ہے  بلکہ احادیث  میں تو اس  حدتک بھی مذکورہے کہ اللہ کے نبی ﷺاعلان فرماتے تھے '' من قتل قتیلا فلہ سلبہ''کہ جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا  تو اس  مقتول کا سارا سازوسامان  اس شخص  (قاتل)کو ملے گا اور صحابہ کرامؓ نے  اللہ کے نبی ﷺکی موجودگی میں قتل کئے اور آپ  ﷺنے مقتولین کاسامان ان صحابہ ؓ کو عطاء فرمایا ۔

اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جب ابن  خطل غلاف کعبہ میں چھپ گیا تھا تو اس کو آپﷺنے وہیں پر قتل کروادیا تھا۔

حدیث شریف میں ہے:

عن بن عون قال * كتبت إلى نافع أسأله عن الدعاء قبل القتال قال فكتب إلي إنما كان ذلك في أول الإسلام قد أغار رسول الله صلى الله عليه وسلم على بني المصطلق وهم غارون وأنعامهم تسقى على الماء فقتل مقاتلتهم وسبى سبيهم۔۔۔۔۔۔

(الصحیح لمسلم ،کتاب الجہادوالسیر،ج:۳،ص:۱۳۵۶)

حديث شريف ميں ہے:

عن عبد الله * أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لأنفسهم خاصة سوى قسم عامة الجيش۔

(الصحیح لمسلم ،کتاب الجہاد،ج:۳،ص:۱۳۶۹)

حدیث شریف میں ہے:

''وجلس النبي صلى الله عليه و سلم فقال ( من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه )''

(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،ج:۴،ص:۱۵۷۰،ط: دار ابن كثير)

حدث شریف میں ہے:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دخل عام الفتح وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاء رجل فقال إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة فقال ( اقتلوه )۔

(صحیح البخاری،باب قتل الاسیر،ج:۳،ص:۱۱۰۷،ط: دار ابن كثير)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں