کیا ماں یا بھائی کے زور زبردستی کی وجہ سے بیوی کے طلاق فارم پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے جب کہ الفاظ منہ سے نہیں کہے ؟
اگر زور زبردستی سے مراد اکراہِ شرعی ہے یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا خوف بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر بھی سکتا ہے جو وہ بول رہا ہے تو اس صورت میں اگر اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
لیکن اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ ماں یا بھائی وغیرہ کے بہت زیادہ اصرار اور ضد کرنے، بار بار مطالبہ کرنے اور اخلاقی دباؤ کی وجہ سے تنگ آکر نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی تو اس صورت میں چاہے زبان سے کہا ہو یا طلاق کے الفاظ لکھیں ہو یا طلاق نامے پر صرف دستخط کیے ہوں تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908201067
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن