تراویح میں سجدہ تلاوت رکوع میں ادا کرنا کیسا ہے؟ یا کبھی رکوع میں نیت کرنااور کبھی سجدہ میں؟
سجدہ تلاوت کے لیے بہترین صورت یہ ہے کہ آیت سجدہ پڑھنے کے فورًا بعد سجدہ کرلیا جائے، اس سے لوگوں میں تشویش نہیں ہوتی۔
رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے کی صورت میں تفصیل یہ ہےکہ اگر کوئی شخص نماز میں آیت سجدہ پڑھ کر فورًا رکوع کرلے یا آیت سجدہ پڑھنے کےبعد دو تین آیتیں پڑھ کر نماز کا رکوع کرلے اور اس میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے تو امام کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔
تاہم مقتدیوں کےلیےحکم یہ ہے کہ :
امام نے رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کی اورمقتدیوں نے بھی نیت کی تومقتدیوں کا سجدہ تلاو ت بھی ہوجائے گا ، لیکن اگرمقتدیوں نے رکوع میں سجدہ تلاوت ادا کرنے کی نیت نہیں کی تو مقتدیوں کا سجدہ تلاوت ادا نہیں ہوگا۔
سجدے میں سجدہ تلاوت کی نیت کا حکم یہ ہے کہ اگر امام نے آیت سجدہ پڑھنے کے بعد تین آیتوں سے کم پڑھا ہے تو نماز کے سجدے میں امام اور مقتدیوں سب کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، چاہے امام یا مقتدیوں نے سجدہ تلاوت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔
الدر المختار (2 / 111)
'' ( و ) تؤدى ( بركوع صلاة ) إذا كان الركوع ( على الفور من قراءة آية ) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر، كما في البحر، ( إن نواه ) أي كون الركوع ( لسجود ) التلاوة على الراجح ( و ) تؤدى ( بسجودها كذلك) أي على الفور ( وإن لم ينو ) بالإجماع، ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه، ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة ولو تركها فسدت صلاته، كذا في القنية وينبغي حمله على الجهرية۔
نعم لو ركع وسجد لها فوراً ناب بلا نية ولو سجد لها فظن القوم أنه ركع فمن ركع رفضه وسجد لها ومن ركع وسجد سجدةً أجزأته عنها، ومن ركع وسجد سجدتين فسدت صلاته؛ لأنه انفرد بركعة تامة''۔
و في الرد: ''قال في الحلية: والأصل في أدائها السجود وهو أفضل، ولو ركع لها على الفور جاز وإلا لا ا هـ أي وإن فات الفور ولا يصح أن يركع لها ولو في حرمة الصلاة، بدائع أي فلا بد لها من سجود خاص بها كما يأتي نظيره''۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200154
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن