بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کرنے والا شہید ہے یا نہیں؟


سوال

میرا بیٹا جس کی عمر تقریباً ساڑھے گیارہ سال تھی، اس کا نام ’’ایان علی‘‘  تھا،  وہ مدرسہ میں قرآن حفظ کے لیے جا رہا تھا، مدرسہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ فوت ہو گیا،  تقریباً اس نے چار سپارے حفظ کرلیے تھے، کیا اپنے بیٹے کو  شہید کہہ سکتا ہو ں؟

جواب

بنیادی طور پر شہید  کی دو قسمیں ہیں:حقیقی اور حکمی۔

حقیقی شہید وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیوی اَحکام لاگو ہوتے ہیں  کہ اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ پڑھ کر ان ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن  میں شہید ہوا ہے، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا،  بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ موقع پر ہی دم توڑجائے۔

اور حکمی شہید وہ کہلاتا ہے، جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے،  یعنی اس کو غسل دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔

آپ کےبیٹے کا انتقال چوں کہ قرآنِ کریم حفظ کرنے کے لیے مدرسے جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں ہوا ہے، اس لیے دنیوی اَحکام کے اعتبار سے تو  وہ ’’شہید‘‘  نہیں کہلائے گا، لیکن حکماً  یعنی آخرت کے اعتبار سے ’’شہید‘‘  کہا جاسکتا ہے،  یعنی  آخرت میں اسے ’’شہید‘‘ جیسا اجر ہی ملے گا.

باقی گیارہ سال کا بچہ نابالغ ہو تو وہ ویسے بھی گناہوں سے پاک ہوتاہے، اور طلبِ علمِ دین کے لیے نکلنے والا اللہ کے راستے میں ہوتاہے، اس لیے اس کی موت فی سبیل اللہ شمار کی جائے گی، اور اس کی نیکیوں کا اجر ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔

قال في الدر:

"وَكُلُّ ذَلِكَ فِي الشَّهِيدِ الْكَامِلِ، وَإِلَّا فَالْمُرْتَثُّ شَهِيدُ الْآخِرَةِ وَكَذَا الْجُنُبُ وَنَحْوُهُ، وَمَنْ قَصَدَ الْعَدُوَّ فَأَصَابَ نَفْسَهُ، وَالْغَرِيقُ وَالْحَرِيقُ وَالْغَرِيبُ وَالْمَهْدُومُ عَلَيْهِ وَالْمَبْطُونُ وَالْمَطْعُونُ وَالنُّفَسَاءُ وَالْمَيِّتُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ وَمَنْ مَاتَ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ، وَقَدْ عَدَّهُمْ السُّيُوطِيّ نَحْوَ الثَّلَاثِينَ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں