بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کے بعد دعا کیسے کی جائے؟


سوال

1.  روضہ رسول پر درود و سلام کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف ہاتھ اٹھا کر اور رخ کرکے کر اللہ سے دعا مانگنا جائز ہے  کہ نہیں؟  یا دعا کے  لیے روضہ رسول سے باہر آنا ہوگا اور قبلہ رخ ہو کر دعا کرنی چاہیے؟ کون سا طریقہ ٹھیک ہے؟

2. روضہ رسول پر ہاتھ اٹھا کر قبر رسول کی طرف رخ کرکے ہم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت مانگ  سکتے ہیں  کہ نہیں اور  کیا اللہ کے رسول سے درخواست کرسکتے  ہیں کہ اللہ کی بارگاہ میں میرے  لیے دین و دنیا کی بہتری کے  لیے دعا کریں؟

3. روضہ رسول میں قبر مبارک کے سامنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کے رسول سے براہِ  راست کچھ طلب کر سکتے ہیں یا مانگ سکتے ہیں؟

جواب

1۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش کرنے کے بعد  ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنی ہو تو قبلہ رخ ہو کر  دعا کرنی  چاہیے۔

2۔ دعا اللہ رب العزت سے ہی کی جائے،  ہاتھ  اٹھائے بغیر شفاعت  کی درخواست کرنا درست ہے۔

3۔  رسولِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ سے دعا کی جا سکتی ہے، لیکن دعا اللہ تعالیٰ سے ہی کی جائے، اور ہاتھ اُٹھانے ہوں تو قبلہ رُخ ہوکر دعا کرنی چاہیے۔

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

السؤال:

ما قول العلماء في استعانة الأحياء بالموتي في طلب الجاه و وسعة الرزق و الأولاد مثلًا، يقال لهم عند القبور: أن تدعو الله تعالي لنا في دفع فقرنا و بسط رزقنا و كثرة أولادنا و شفاء مرضنا و فلاحنا في الدارين، لأنكم سلفنا مستجاب الدعوات عند الله، فهل يجوز الإستعانة بالأموات بهذا الطريق المذكور أم لا؟ فبينوا جوازها و عدم جوازها من الكتاب و السنة و أقوال المجتهدين، توجروا من الله تعالي.

الجواب:

الحمد لله رب العلمين، ربّ زدني علمًا: الإستعانة بالأنبياء و الأولياء مطلوبة إلا انها لم تشرع في المواضع المذكورة، و الله سبحانه و تعالي أعلم!

أمر برقمه المقصر عبد الله بن محمد مير غني الحنفي، مفتي مكة المكرمة كان الله تعالى لهما حامدًا و مصليًا مسلمًا."

( زندوں کا مردوں سے مانگنا، ص: ١٧٩، ط: ادارہ صدائے دیوبند)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"و قوله : ( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) يرشد تعالى العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلى الرسول صلى الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده ، ويسألوه أن يستغفر لهم ، فإنهم إذا فعلوا ذلك تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم ، ولهذا قال : ( لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا)
وقد ذكر جماعة منهم : الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه " الشامل " الحكاية المشهورة عن العتبي ، قال : كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا رسول الله ، سمعت الله يقول : (وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا) وقد جئتك مستغفرًا لذنبي مستشفعًا بك إلى ربي ثم أنشأ يقول :
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه فطاب من طيبهن القاع والأكم نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه
فيه العفاف وفيه الجود والكرم
ثم انصرف الأعرابي فغلبتني عيني ، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقال : يا عتبي ، الحق الأعرابي فبشره أن الله قد غفر له."

اسی طرح کا ایک واقعہ "جذب القلوب الی دیار المحبوب" میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے  وصال کے تین دن بعد روضۂ اطہر پر ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ آپ نے جو پروردگار سے سنا ہم نے آپ سے سنا، اور جو کچھ آپ نے اللہ کی جانب سے یاد کیا ہم نے آپ سے یاد کیا، آپ پر جو آیات نازل ہوئیں ان میں سے یہ آیتِ شریفہ بھی ہے:

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا [النساء: 64]

ترجمہ: جب ان لوگوں نے اپنے آپ پر (نافرمانیوں کے ساتھ) ظلم کیا تو اگر یہ لوگ آپ کے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے اور آپ بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔

اور یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں نے خود پر ظلم کیا ہے، اور آپ ﷺ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ میرے لیے استغفار کیجیے، اس پر روضۂ اطہر کے اندر سے آواز آئی: اللہ تعالیٰ نے تجھے بخش دیا ہے۔ (ماخوذ از جذب القلوب الی دیار المحبوب، للشیخ عبدالحق الدھلوی، باب چہار دہم: فضائل سید المرسلین ۔۔۔، ص: 211، 212، ط: مطبع نامی، منشی نول کشور، لکھنؤ)

امداد المسائل از مفتی عبد الشکور ترمذی میں ہے:

"روضۂ اطہرپرجاکرحضورصلی اللہ علیہ   وسلم سے شفاعت کی درخواست کرنا

الاستفتاء:

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف پرجاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست اس طرح کرنا کہ یارسول اللہ میری فلاں حاجت ہے اس میری حاجت کو اللہ تعالیٰ سے پوراکروادیں یہ جائزہے یانہیں ہے ؟

الجواب:

اس طرح کہناجائزہے کہ میری حاجت کے لیے دعاکردیں کہ اللہ تعالیٰ اس کوپوراکردیں،فقط۔ واللہ اعلم ۲؍رجب ۱۴۱۰ھ ( ص: ۱۴۵)۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں