بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ سے عاجز شخص کا زندگی میں فدیہ ادا کرنا، ایک مسکین کو کئی روزوں کا فدیہ ادا کرنا


سوال

اگر ایک مسلمان روزوں کی قضا نہیں ادا کر سکتا تو کیا وہ کئی روزوں کا فدیہ ایک ہی مسکین کو بیک وقت ادا کر سکتا ہے؟ یا جدا جدا مسکین کو ایک ایک روزے کا فدیہ ادا کرے گا اور اگر کسی جگہ ایک سے زیادہ مسکین نہ ہو تو کئی روزوں کا فدیہ کیسے ادا کیا جائے؟ 

جواب

زندگی میں روزوں کے فدیہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ  اگر کوئی  شخص ایسا بوڑھا  ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت  نہ رہی  اور آئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہیں ، یا ایسا بیمار ہوا کہ  روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہے،  تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد  اگر موت سے پہلے  روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو  ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا،  فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔ 

ایک روزے  کا فدیہ  ایک صدقۃ الفطر  کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

نیز رمضان کے پورے  روزوں کا فدیہ ایک  ہی محتاج  کو ایک ساتھ دینا چاہے تو دیا جاسکتا ہے، فدیہ ادا ہوجائے گا، اور اگر الگ الگ شخص کو  دینا چاہے تو بھی دے سکتا ہے، دونوں صورتوں میں فدیہ ادا ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427):
"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً، ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير، كالفطرة لو موسراً.

(قوله: وبلا تعدد فقير) أي بخلاف نحو كفارة اليمين للنص فيها على التعدد، فلو أعطى هنا مسكيناً صاعاً عن يومين جاز، لكن في البحر عن القنية: أن عن أبي يوسف فيه روايتين، وعند أبي حنيفة لايجزيه كما في كفارة اليمين، وعن أبي يوسف: لو أعطى نصف صاع من بر عن يوم واحد لمساكين يجوز، قال الحسن: وبه نأخذ اهـ ومثله في القهستاني".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں