بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روح کیا ہے؟


سوال

روح کیا ہے؟ انسانی جسم میں روح کس ذریعےے داخل ہوتی ہے؟ قران پاک اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کے حوالے سے جواب دیں۔

جواب

نبی کریم ﷺسے رو ح کے با رے میں سوا ل کیاگیاتو و حی الٰہی کے ذر یعے صر ف اسی قدر جواب دیا گیا:

﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾ یعنی روح بھی میر ے ر بّ کے امرکن ہی سے ہے اور اس کی مخلو ق ہے ۔

چناں چہ صحیح بخاری سمیت حدیث کی دیگر کتب میں یہ روایت موجود ہے کہ :

''عن عبد الله ، قال : بينا أنا أمشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في خرب المدينة وهو يتوكأ على عسيب معه، فمر بنفر من اليهود فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح، وقال بعضهم: لا تسألوه لا يجيء فيه بشيء تكرهونه، فقال بعضهم: لنسألنه، فقام رجل منهم، فقال: يا أبا القاسم! ما الروح؟ فسكت فقلت: إنه يوحى إليه، فقمت فلما انجلى عنه قال: ﴿ وَيَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلاً ﴾''۔(الاسراء:85)

ترجمہ:حضرت  عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی ایک چھڑی کو زمین پر ٹکا کر چلتے تھے کہ یہود کے کچھ لوگوں پر آپ گزرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کی بابت سوال کرو، اس پر بعض نے کہا کہ نہ پوچھو، مبادا اس میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جو تم کو بری معلوم ہو ،پھر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم ضرور آپ سے پوچھیں گے، چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ نے سکوت فرمایا (ابن مسعود کہتے ہیں) میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ پر وحی آرہی ہے، لہذا میں کھڑا ہو گیا، پھر جب وہ حالت آپ سے دور ہوئی، تو آپ نے فرمایا: (ترجمہ) اے نبی یہ لوگ تم سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے پرودگار کے حکم سے (پیدا ہوئی) ہے اور اس کی اصل حقیقت تم نہیں جان سکتے؛ کیوں کہ تمہیں کم ہی علم دیا گیا ہے۔

بعد کے زمانے میں فلا سفہ ،عقلا ء اور سا ئنس دا نوں  نے ا پنی علمی بسا ط کے مطا بق ''رو ح'' کے بارے میں ا ظہا رِ خیا ل کیا اور مسئلہ روح پر مستقل  کتا بیں اور ر سا ئل لکھے گئے ۔

اسی طرح مفسر ین حضرا ت میں بھی دو جما عتیں ہیں:بعض مفسرین نے اس مسئلہ میں تفصیل اور گہرا ئی میں جانے سے گر یز کیا ہے اور ا نہوں نے اُسی ا جما ل کو تر جیح دی ہے جسے کلا م ا للہ بیا ن کیا گیا ہے ۔چناں چہ جمہور علماء نے ﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾کے پیشِ نظر اس مسئلہ میں سکو ت اختیار کرنے کو ہی افضل  اور بہترقرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ''تفسیر عثمانی'' میں لکھتے ہیں:

'' یعنی روحِ انسانی کیا چیز ہے؟ اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہودِ مدینہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزمانے کو کیا تھا۔ اور سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا۔ اسی لیے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو ، واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے اُدھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں از راہِ تعنت و عناد جھگڑتے رہتے ہیں ۔ ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخہ شفا سے فائدہ اٹھاتے، مگر انہیں دور از کار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں ۔ "روح" کیا ہے؟جوہر ہے یا عرض؟ مادی ہے یا مجرد؟ بسیط ہے یا مرکب؟ اس قسم کے غامض اور بےضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائضِ تبلیغ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ آج تک خود "مادہ" کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے، "روح" جو بہرحال "مادہ" سے کہیں زیادہ لطیف و خفی ہے، اس کی اصل ماہیت وکنہ تک پہنچے کی پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالات اور یہودِ مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی؟''

مولانامفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'' قرآن کریم نے یہ جواب دیا ہے ، ﴿ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّيْ ﴾ ،اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں، ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے، صرف وہ بتلادی گئی، اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لیے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی، یہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کےجواب میں یہ فرما دیجیے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں، بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔۔۔ اور انسان کے لیے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے، اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دینوی کام اٹکا ہوا نہیں، اس لیے وہ حصہ سوال فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا، خصوصاً جب کہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لیے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لیے بھی آسان نہیں ... قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیا،حقیقتِ روح کو بیان نہیں فرمایا، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ''روح''  کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات، اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف و الہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں، بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائےتو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا، مگر ناجائز نہیں کہا جا سکتا ؛ اسی لیے بہت سے علماءِ متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں، آخری دور میں ہمارے استاذِ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے، اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لیے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے، جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کر سکتا ہے، اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔''

بعض مفسر ین حضرات ا یسے ہیں جو روح کے  با رے میں تفصیل کر تے ہیں  اور اس کی حقیقت وماہیئت کو کسی حد تک آشکارا کرتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ''سیرت المصطفی'' جلد اول ص:189تا 196 ملاحظہ فرمائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں