بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان میں بیوی سے جماع کیا اور بعد میں بیوی کا انتقال ہوگیا تو کفارہ کی صورت


سوال

پچھلے رمضان میں روزے کی حالت میں میں نے اپنی بیوی سی جماع کرلیا. اور میری بیوی کو اس کی سزا کا علم نہ تھا. اب میری بیوی وفات پاگئی تو اب میرے  لیے او ر بیوی کے  لیے اس جرم کی سزا کیا ہے کہ ہمارا ذمہ فارغ ہو؟ میں بہت شرمندہ ہوں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل پر رمضان میں روزے  کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرنے سے اس روزے کی قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔

 کفارہ میں ساٹھ روزے مسلسل رکھنا واجب ہے، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوٹ گیا (خواہ بیماری کی وجہ سے چھوٹا) تو از سرِ نو دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے۔  اگر روزے رکھنے کی استطاعت نہ ہو  (یعنی بہت ضعیف ہو یا مستقل مریض ہو) تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا واجب ہے، چاہے ایک ہی دن میں صبح وشام دو وقت کا کھلا دے، چاہے دو دن صبح کے وقت کھلا دے یا دو دن شام کے وقت کھلا دے، لیکن ایک شرط یہ ہے کہ جن مسکینوں کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جائے، دوسرے وقت بھی انہیں مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، اگر ایک وقت ایک مسکین کو اور دوسرے وقت دوسرے مسکین کو کھانا کھلایا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔
باقی مرحومہ کے ذمہ بھی زندگی میں تو یہی لازم تھا کہ وہ قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ ادا کرتی، لیکن زندگی میں معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ادا نہ کرسکی تو  ایسی صورت میں حکم یہ تھا کہ موت سے پہلے وہ وصیت کرجاتی کہ اس کے قضا روزے کے بدلے فدیہ دے دیا جائے اور اس کی طرف سے کفارے میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا جائے، لیکن مذکورہ صورت میں چوں کہ اس نے روزے کے فدیہ اور کفارہ کی رقم ادا کرنے کی وصیت بھی نہیں کی تو مرحومہ کے ورثہ پر ترکہ میں سے فدیہ اور کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر سائل مرحومہ کی طرف سے خود ادا کردے تو عند اللہ قبولیت کی امید رکھنی چاہیے، بلکہ اگر آپ کی استطاعت ہو تو ادا کردینا چاہیے۔

واضح رہے کہ ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے۔ یعنی پونے دو کلو  گندم یا اس کی قیمت۔ اور ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو جو کھانا دیا جائے اس کی مقدار بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے۔

 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"من جامع عمدًا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية". (النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، 1/205، ط: بيروت)

وفيه أيضًا:

"فإن غداهم وعشاهم وأشبعهم جاز سواء حصل الشبع بالقليل أو الكثير، كذا في شرح النقاية لأبي المكارم. فلو غداهم يومين أو عشاهم كذلك أو غداهم وسحرهم أو سحرهم يومين أجزأه، كذا في البحر الرائق ... لو غدى ستين وعشى ستين غيرهم لايجزيه إلا أن يعيد على أحد الستينين منهم غداء وعشاء، كذا في التبيين". (الباب العاشر في الكفارة، 1/514، ط: رشيديه) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں