بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک میں مغرب کی اذان کو مؤخر کرنا


سوال

ہمارے ہاں مساجد دور دور ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ افطار کی دعا کے بعد اذان میں10منٹ  تاخیرکریں اور نماز لمبی رکعت ہو۔اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 رمضان المبارک میں روزہ داروں اور نمازیوں کی سہولت کی خاطر مغرب کی اذان اور نماز میں  دس منٹ تک وقفہ کی گنجائش ہے ، اس سے زیادہ تاخیر کرنا درست نہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ مختصر افطار کرکے وقت پر مسجد پہنچنے کا اہتمام کریں۔ مغرب کی نماز میں تلاوت کی جو مقدار مسنون ہے امام کو وہی معمول رکھنا چاہیے، البتہ بعض مواقع پر احادیث میں مغرب کی نماز میں طویل قرأت بھی ثابت ہے، لہٰذا اگر رمضان میں مسنون مقدار سے کچھ زیادہ قرأت کرلی جائے تو اس کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ مقتدیوں کی تھکان کا سبب بھی نہ ہو اور تاخیر کی وجہ سے آسمان پر ستارے نہ چمکنے لگیں۔

باقی اذان کا تعلق نماز سے ہے، یعنی سال کے عام دنوں میں جس نماز کا جو وقت مستحب ہے اسی کی مناسبت سے اذان کا وقت طے کیا جاتاہے، جو نماز جلدی پڑھی جائے اس کے لیے اذان بھی جلدی اور جس میں تاخیر کی جاتی ہے وہاں اذان بھی تاخیر سے دی جاتی ہے۔ لہٰذا عام دنوں میں تو غروب کا یقین ہوجانے کے بعد فوراً اذان دے کر بلاتاخیر نمازِ مغرب ادا کرنے کا حکم ہے، رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنے کی ضرورت کے پیشِ نظر اذانِ مغرب اور نماز کے درمیان فاصلہ دیا جاتاہے، چوں کہ لوگ رمضان المبارک میں اذان کو  غروبِ آفتاب کی علامت سمجھتے ہیں اور اذان سن کر ہی روزہ کھولتے ہیں اور امت کا تعامل اسی پر چلا آرہاہے، اس لیے رمضان میں اگرچہ افطاری کے عذر کی وجہ سے مغرب کی نماز  میں  دس منٹ تک   تاخیر  کی جائے  تب بھی اذان غروبِ آفتاب کا یقین ہونے کے فوراً بعد دینی چاہیے، تاکہ جو لوگ روزہ کھولنے کے لیے اذان کا انتظار کرتے ہیں وہ وقت پر روزہ کھول سکیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 384):

" لأنه سنة للصلاة حتى يبرد به، لا للوقت.

وحكم الأذان كالصلاة تعجيلاً وتأخيراً ... وحاصله: أنه لا يلزم الموالاة بين الأذان والصلاة، بل هي الأفضل، فلو أذن أوله وصلى آخره أتى بالسنة، تأمل".

وفیہ ایضا (1/ 368) :
"(و) أخر (المغرب إلى اشتباك النجوم) أي كثرتها (كره) أي التأخير لا الفعل لأنه مأمور به (تحريماً) إلا بعذر كسفر، وكونه على أكل.
(قوله: وكونه على أكل) أي لكراهة الصلاة مع حضور طعام تميل إليه نفسه ولحديث «إذا أقيمت الصلاة وحضر العشاء فابدءوا بالعشاء» ) رواه الشيخان". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں