بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رفع یدین کا حکم


سوال

رفع الیدین کے بارے میں جو اہل حدیث مسلک کا موقف ہے  کیا وہ درست ہے؟ اگروہ درست نہیں ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ صحیح موقف کیا ہے؟

جواب

مسئلہ رفع یدین وجوب وعدم وجوب سے متعلق نہیں ہے  بلکہ صرف سنیت وافضیلت سے متعلق ہے اس لئے اس مسئلہ میں شدت اختیار کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے، بہرحالرفع یدین سے متعلق عرض یہ ہےکہ رفع یدین  ابتدائی زمانہ میں نماز کے اندر متعدد موقعوں پر کرنا سنت تھا مثلاً رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، سجدہ میں جاتے وقت، سجدہ سے اٹھتے وقت، دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے وقت اور سلام کے وقت، جیسا کہ درجذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے:

سنن النسائي (2/ 205)

عن مالك بن الحويرث أنه «رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع أذنيه»،

حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی نمازمیں رفع یدین کیا جب آپ نے رکوع کیا اور جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور جب آپ نے سجدہ کیا اور جب آپ نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا۔ 

صحيح البخاري (1/ 148)

عن نافع، أن ابن عمر، كان " إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه، وإذا ركع رفع يديه، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، رفع يديه، وإذا قام من الركعتين رفع يديه "، ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر (تحریمہ) کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب سَمِعُ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تو رفع یدین کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد پڑھ کر)   اٹھتے تو رفع یدین کرتے اور انہوں نے اس کی نسبت نبی ﷺکی طرف کی۔

پھربعد میں   تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تمام مواقع پر  رفعِ یدین کا حکم منسوخ ہو گیا  چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے:

صحيح مسلم (1/ 322)

عن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة»

حضرت جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ (حجرہ مبارک سے) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے ، آپ نے فرمایا انہیں کیا ہو گیا جیسے بدکے ہوئے گھوڑوں کی دمیں (اٹھی ہوئی) ہوں  لہٰذا نماز کے اندر سکون اختیار کرو۔

اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے رفعِ یدین کا منسوخ ہونا ثابت کیا ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین نہ کرنے کی روایات کثرت سے نقل کی گئیں، لہذا اب وہ احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رفعِ یدین نہ کرنا ثابت ہے:

سنن أبي داود (1/ 200)

عن البراء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من أذنيه، ثم لا يعود»

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے پھر بعد میں نہ اٹھاتے (یعنی پھر نماز میں کسی اور موقع پر رفع یدین نہ کرتے)

سنن الترمذي ت بشار (1/ 343)

عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.

علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟  پھر انہوں نے نماز پڑھی اور اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا مگر صرف پہلی مرتبہ میں (یعنی تحریمہ کے وقت)۔ 

مستخرج أبي عوانة (1/ 423)

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا» وَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَا يَرْفَعُهُمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ

حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے  ہیں کہ  میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اپنے مونڈھوں تک اٹھاتے او جب آپ رکوع کرنے کا ارادہ کرتے (یعنی جب رکوع میں جانے لگتے) اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد (ان دونوں موقعوں پر) آپ اپنے ہاتھ نہ اٹھاتے تھے (اور رفع یدین نہ کرتے تھے)

            خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفعِ یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں ثابت ہے، پھر علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی کہ ابتداء اسلام میں رفعِ یدین کرنے کا حکم تھا اور اخیر میں یہ عمل منسوخ ہو گیا۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143907200076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں