بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رضامندی کے بغیر نکاح ہوجانے کے بعد یک طرفہ عدالتی خلع لینے کا حکم


سوال

لڑکی کی رضا مندی کے خلاف نکاح ہو گیا، اب لڑکی بغیر کسی شری عذر کے اس سے طلاق چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دیتا اور لڑکی خلع چاہتی ہے تو لڑکی نے کیس عدالت میں فائل کیا اور عدالتی نوٹس کو شوہر کے پاس جانے سے روک دیا تو عدالت نے شوہر کے نہ آنے پر خلع کی ڈگری جاری کر دی تو کیا یہ خلع صحیح ہے؟

جواب

اگر نکاح کے وقت لڑکی نے اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا، اور نہ ہی خود اس نکاح کو قبول کیا اور نہ ہی کسی کو مجلس نکاح میں اپنی طرف سے اس نکاح کو قبول کرنے کا وکیل بنایا اور نہ ہی نکاح ہونے کے بعد اطلاع ملنے پر قولاً یا فعلاً رضامندی کا اظہار کیا تھا تو یہ نکاح ہوا ہی نہیں ہے، اس لیے طلاق لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر لڑکی نے راضی نہ ہونے کے باوجود گھر والوں کے دباؤ میں زبردستی کی وجہ سے زبانی طور پر اس نکاح کو قبول کرلیا تھا یا کسی کو  اجازت دے کر قبول کا وکیل بنالیا تھا یا نکاح ہونے کے بعد اطلاع ملنے پر اس نکاح پر قولاً یا عملاً رضامندی کا اظہار کردیا تھا تو پھر اس صورت میں یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے، اب شوہر کو راضی کرکے طلاق یا خلع لیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اور صورتِ مسئولہ میں عدالت سے لی گئی یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں