بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعت کے ثبوت کی شرائط


سوال

میری والدہ کہتی ہے کہ میں نے آپ کی زوجہ کو پینتالیس سال قبل  دودھ پلایا ہے۔اس سے پہلے ہمیں علم نہیں تھا اور کوئی گواہ بھی نہیں ہے،میری شادی کوپچیس سال ہوئے ہیں ، مسئلہ مذکورہ میں کیا حکم ہے؟

جواب

رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد ، یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔

لہذاصورتِِ مسئولہ میں آپ کی والدہ کا یہ کہنا کہ میں نے آپ کی زوجہ کو پینتالیس سال قبل دودھ پلایاہے اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں یا صرف شوہر اس رضاعت کی تصدیق کرتاہوتو اس صورت میں جدائی  لازم ہے۔

العنایہ میں ہے :

" (ولاتقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين) وقال مالك رحمه الله: تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفةً بالعدالة؛ لأن الحرمة حق من حقوق الشرع؛ فتثبت بخبر الواحد، كمن اشترى لحمًا فأخبره واحد أنه ذبيحة المجوسي. ولنا أن ثبوت الحرمة لايقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لايثبت إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين، بخلاف اللحم؛ لأن حرمة التناول تنفك عن زوال الملك فاعتبر أمرًا دينيًّا، والله أعلم بالصواب". (5/158)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"(قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا". (3/681)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوي الحامدية میں ہے:

"(سُئِلَ) فِي شَهَادَةِ النِّسَاءِ وَحْدَهُنَّ عَلَى الرَّضَاعِ هَلْ تُقْبَلُ؟

(الْجَوَابُ): حُجَّةُ الرَّضَاعِ حُجَّةُ الْمَالِ، وَهُوَ شَهَادَةُ عَدْلَيْنِ أَوْ عَدْلٍ وَعَدْلَتَيْنِ، وَلَايَثْبُتُ بِشَهَادَةِ النِّسَاءِ وَحْدَهُنَّ لَكِنْ إنْ وَقَعَ فِي قَلْبِهِ صِدْقُ الْمُخْبِرِ تُرِكَ قَبْلَ الْعَقْدِ أَوْ بَعْدَهُ، كَمَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ. (أَقُولُ) : أَيْ تُرِكَ احْتِيَاطًا وَذُكِرَ فِي الْبَحْرِ عَنْ الْكَافِي وَالنِّهَايَةِ: أَنَّهُ لَايَثْبُتُ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ وَلَوْ رَجُلًا قَبْلَ الْعَقْدِ أَوْ بَعْدَهُ، ثُمَّ ذُكِرَ عَنْ مُحَرَّمَاتِ الْخَانِيَّةِ: أَنَّهُ لَوْ أَخْبَرَ عَدْلٌ ثِقَةٌ يُؤْخَذُ بِقَوْلِهِ، وَلَايَجُوزُ النِّكَاحُ وَإِنْ أَخْبَرَ بَعْدَ النِّكَاحِ، فَالْأَحْوَطُ أَنْ يُفَارِقَهَا، ثُمَّ وَفَّقَ بَيْنَهُمَا بِحَمْلِ كُلٍّ عَلَى رِوَايَةٍ أَوْ حَمْلِ الْأَوَّلِ عَلَى غَيْرِ الْعَدْلِ أَوْ كَتَبْت فِي حَاشِيَتِي عَلَيْهِ عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيِّ: أَنَّ قَوْلَ الْخَانِيَّةِ: يُؤْخَذُ بِقَوْلِهِ، مَعْنَاهُ يُفْتِي لَهُمْ بِذَلِكَ احْتِيَاطًا، فَأَمَّا الثُّبُوتُ عِنْدَ الْحَاكِمِ فَيَتَوَقَّفُ عَلَى نِصَابِ الشَّهَادَةِ التَّامِّ، وَقَالَ الشَّيْخُ قَاسِمٌ فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ نَحْو ذَلِكَ مُعَلَّلًا بِأَنْ تَرَكَ نِكَاحَ امْرَأَةٍ تَحِلُّ لَهُ أَوْلَى مِنْ نِكَاحِ مَنْ لَاتَحِلُّ لَهُ، وَبَقِيَ مَا لَوْ أَخْبَرَ الْوَاحِدُ بِرَضَاعٍ طَارِئٍ عَلَى الْعَقْدِ كَمَا لَوْ تَزَوَّجَ صَغِيرَةً فَأَخْبَرَ بِأَنَّ أُمَّهُ مَثَلًا أَرْضَعَتْهَا بَعْدَ الْعَقْدِ، فَذَكَرَ الزَّيْلَعِيُّ: أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ فِيهِ مَقْبُولٌ، وَتَمَامُ الْكَلَامِ عَلَيْهِ فِي الْبَحْرِ، فَرَاجِعْهُ". ( كتاب الرضاع، ١ / ٣٥)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں