بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضائی بھانجی سے نکاح، نسب و میراث کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام مسئلہ مذکورہ کے متعلق ایک بہن جس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس کے بھائی نے اپنابیٹا 3 دن کا اسکو دے دیا ۔اس بھائی کے بیٹے نے بہن کی بیٹی کے ساتھ دودھ بھی پیا اور پھر  اس لڑکے کی رضاعی بہن کی بیٹی کے ساتھ اسکا نکاح کر دیا گیا  جو کہ رشتے میں اسکی بھانجی لگی ۔اور اب اسکا ایک بیٹا بھی ہے ۔جو بھائی نے بہن کو بیٹا دیا تھا اسکے شناختی کارڈ میں والد کی جگہ بہن کے شوہر کا نام ہے ۔جو اسکا رضاعی والد بھی ہوا۔

سوال نمبر (1) کیا اس طرح کا نکاح جائز ہے سوال نمبر (2) اگر جائز نہیں تو پھر انکا شریعت کی رو سے کیا حل ہے سوال نمبر (3) کیا وہ رضاعی بیٹا واراثت کا بھی حق دار ہے سوال نمبر (4) رضاعی بیٹے کا بیٹا اسکی اب شریعت کی رو کیا حکم ہے ۔وہ کس کے ساتھ وارثت میں شریک ہو گا ۔ شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

۱ ،۲ )جس طرح نسبی رشتوں کی وجہ سے حرمت آتی ہے اسی طرح رضائی رشتوں کی وجہ سے بھی حرمت آتی ہے، صورت مسئولہ میں چونکہ نکاح کرنے والے فریقین کا رشتہ آپس میں رضائی ماموں اور بھانجی کا ہے اس لئے  مذکورہ نکاح جائز نہیں ہے، لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فورا علیحدہ ہوجائیں، شوہر زبان سے بھی کہہ دے کہ اس نے اس بیوی کو چھوڑ دیا اور اب تک  ساتھ رہنے پر دونوں خوب توبہ و استغفار کریں۔

۳ ) رضاعی بیٹا وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔

۴ ) اگر مذکورہ نکاح کرتے وقت فریقین کو اس نکاح کی حرمت کا علم نہ تھا تو مذکورہ نکاح فاسد ہے اور نکاح فاسد سے ہونے والی اولاد کا چونکہ نسب ثابت ہوتا ہے اس لئے مذکورہ بچہ کا نسب اپنے حقیقی والد سے ثابت ہے اور یہ بچہ صرف اپنے حقیقی والد کا وارث بنے گا، حقیقی والد کے رضائی والد کا وارث نہیں بنے گا۔

بھائی نے جو بیٹا اپنی بہن کو گود دیا تھا اس  بچے کی ولدیت کی نسبت کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اس کے شناختی کارڈ سمیت تمام تر کاغذات اور معاشرتی زندگی میں اسے اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کر کے لکھا اور پکارا جائے، لہٰذا  صورت مسئولہ میں مذکورہ بچہ کے  شناختی کارڈ میں ولدیت کے خانہ میں حقیقی والد کی جگہ منہ بولے رضائی والد (جو کہ بچہ کے پھوپھا بھی ہیں) کا نام لکھوانا  جائز نہیں تھا، لہٰذا کوشش کر کے اس کو درست کروانا چاہیئے، کیونکہ حدیث شریف میں حقیقی والد کے بجائے کسی اور کی طرف ولدیت کی نسبت کرنے پر وعید اور ممانعت وارد ہوئی ہے، بلکہ قرآن مجید میں بھی اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 31)

(و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا، ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه.

 (قوله: نسبا) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرة، وقوله: رضاعا تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 516)

(وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا) فلا عدة في باطل وكذا موقوف قبل الإجازة اختيار، لكن الصواب ثبوت العدة والنسب بحر (والموطوءة بشبهة) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء

 (قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة، ونكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد عنده خلافا لهما فتح ۔۔۔۔۔۔۔۔ وتقدم في باب المهر أن الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة وثبوت النسب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 517)

 قال الحلواني: هذه المسألة دليل على أن الفراش ينعقد بنفس العقد في النكاح الفاسد، خلافا لما يقوله البعض أنه لا ينعقد إلا بالدخول اهـ فهذا صريح في ثبوت النسب فيه، ويتبعه وجوب العدة، فكان ما في المحيط والاختيار سهوا، بحر.

قلت: لكن يشكل على هذا تصريحهم بأن النكاح الفاسد إنما يجب فيه مهر المثل، والعدة بالوطء لا بمجرد العقد ولا بالخلوة لفسادها لعدم التمكن فيها من الوطء كالخلوة بالحائض، فلا تقام مقام الوطء كما صرح بذلك في الفتح والبحر وغيرهما في باب المهر، إلا أن يقال إن انعقاد الفراش بنفس العقد إنما هو بالنسبة إلى النسب لأنه يحتاط في إثباته إحياء للولد.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 540)

وفاسد النكاح في ذلك كصحيحه قهستاني.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 540)

(قوله: وفاسد النكاح في ذلك كصحيحه) فيه نظر، فإنه لا يلائم قولهم، إذا أتت به لتمام السنتين أو لأكثر منهما كان رجعة لأن الوطء في عدة النكاح الفاسد لا يوجب الرجعة فتأمل ح. وأجاب ط بأن الإشارة في قوله ذلك لثبوت النسب لا للرجعة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 555)

(قوله: لأنه نكاح باطل) أي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب ولذا تكون بالفاسد فراشا لا بالباطل رحمتي، والله سبحانه أعلم.

الفتاوى الهندية (6/ 447)

ويستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب وهو القرابة، والسبب وهو الزوجية، والولاء


فتوی نمبر : 143907200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں