بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مختلف خاندانوں میں باہم رشتے کے حوالے سے برابری


سوال

 کیا یہ ٹھیک ہے کہ لڑکی والے متوسط جٹ ہیں جب کہ لڑکے والے متوسط کسی اور ذات سے جیسے مغل تو کیا والدین کو یہ ذات پات پر اعتراض ہونا چاہیے؟ میرے خیال میں اللہ کے ہاں سب برابر ہیں جب کہ تقوی کی بنیاد پر اونچے درجے کا کہا گیا ہے۔ مجھے اس بارے میں جاننا ہے!

جواب

بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے ماں باپ کو پسند کرنے نہ کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے،  نیز  برابری کا مناسب رشتہ مل جانے کے بعد  بلاوجہ اعتراض کرنا درست نہیں، البتہ مصالحِ نکاح کے حصول کا مدار چوں کہ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی اور موافقت ہونا بھی ہے،  جس سے بسا اوقات ثقافتی اختلاف مانع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بڑے بزرگ دوسرے خاندانوں میں رشتہ کرنے میں احتیاط کرتے ہیں، سوال میں مذکورہ مثال میں اگرچہ دونوں خاندان غیر کفو نہیں، لیکن اگر خاندان کے بڑے دوسرے خاندان  کو  کم تر نہ سمجھتے ہوں، بلکہ احتیاط اور تجربے کی بنیاد پر رشتہ نہ کریں تو اس میں حرج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت کا مدار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے، لہٰذا قومیت اور خاندان کی بنیاد پر دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنا یا کہنا جائز نہیں ہے۔ لیکن جہاں خاندانی اعتبار سے یا پیشے کے اعتبار سے بہت زیادہ تفاوت ہو (مثلاً سید لڑکی کا غیر سید سے نکاح وغیرہ) وہاں لڑکی کے اولیاء کو رشتے سے منع کرنے کا حق شریعتِ اسلامیہ نے خود دیا ہے، لہٰذا "کفاءت" کا یہ حق تقویٰ اور قبولیت کے معیار کے خلاف نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں