بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی تعداد


سوال

کل احادیث کی تعداد کتنی ہے؟

جواب

احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، اصل یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاح میں صرف آپ ﷺ کے ارشادات کو حدیث نہیں کہا جاتا، بلکہ   بلکہ آپ ﷺکے افعال، اخلاق، احوال اور آپ کی موجودگی میں لوگوں کے کیے ہوئے وہ کام جن پر آپ نے گرفت نہیں فرمائی، اور اس کے ساتھ صحابہ کے اقوال، ان کے مفتیوں کے فتاویٰ، زمانۂ خلافت میں ان کی عدالتوں کے فیصلے، بلکہ تابعین کے فتاویٰ اور جج ہونے کی حیثیت میں ان کے فیصلے، اور قرآنی آیات پر تشریحی نوٹس بھی احادیث میں شمار کیے گئے ہیں، علامہ طاہر بن صالح الجزائری الدمشقی (المتوفی: 1338هـ) لکھتے ہیں:

"إِن كثيراً من الْمُتَقَدِّمين كَانُوا يطلقون اسْم الحَدِيث على مَا يَشْمَل آثَار الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ وتابعيهم وفتاويهم، ويعدون الحَدِيث الْمَرْوِيّ بِإِسْنَادَيْنِ حديثين"۔

ترجمہ: متقدمین کی اکثریت آثارِ صحابہ، تابعین اور اتباعِ تابعین اور ان کے فتاویٰ پر لفظِ حدیث بولتی ہے، اور جو حدیث دو سندوں سے مروی ہو اس کو دو حدیثیں شمار کرتی ہے۔

نیز  جو حدیثیں مختلف طرق سے منقول ہیں تو اس کی ہر ایک سند پر بھی محدیثیں حدیث کا اطلاق کرتے ہیں، مثلاً ایک  حدیث "إِنَّمَا الْأَعْمَال بِالنِّيَّاتِ" یہ سات سو طرق سے منقول ہے، تو محدثین کی اصطلاح میں اس کو سات سو  احادیث شمارکیا جائے گا۔

اسی وجہ سے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ)  تمام ذخیرۂ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

"فَالْجَوَاب أَن المُرَاد بِهَذَا الْعدَد الطّرق لَا الْمُتُون"۔ (تلقيح فهوم أهل الأثر (ص: 263)

یعنی ان سے مراد احادیث کے طرق اور اسانید ہیں، نہ کہ متون۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ  محدثین کے متعلق جو اُصول کی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ "الجامع الصحیح"  کی موجودہ احادیث چھ لاکھ حدیثوں کا انتخاب ہے یا امام مسلم فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم کی حدیثوں کو میں نے تین لاکھ حدیثوں سے منتخب کیا ہے،امام ابوداود فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم  کی پانچ لاکھ حدیثیں لکھی ہیں ان کا انتخاب سنن ابوداود میں ہے،امام احمد فرماتے ہیں کہ سات لاکھ پچاس ہزار حدیثوں کا انتخاب ہے۔ اس کا  یہ مطلب نہیں ہے کہ ارشاداتِ نبوت کی یہ تعداد ہے، بلکہ یہ ارشادات جن طرق اور اسانید سے آئے ہیں ان کی تعداد ظاہر کرنی مقصود ہے، اور تاریخِ حدیث میں یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے، بلکہ جہاں تک طرق واسانید کا معاملہ ہے وہ اس سے بھی کہیں زائد ہیں، یہ تو صرف وہ ہیں جو ان بزرگوں نے اپنی عرق ریزیوں اور دست پیمائیوں کے بعد فراہم کیے ہیں، ان کے علاوہ اگر دوسرے محدّثین کی محنتوں اور یادداشتوں کو یک جا کیا جائے تو یہ سلسلہ بے حدو بے حساب ہے، کیوں کہ تابعین کے زمانے میں اگر طرق واسانید کی تعداد صرف چالیس ہزار تھی تو اتباعِ تابعین کے دور میں یہی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی، کیوں کہ ایک شیخ نے کسی حدیث کو مثلاً دس شاگردوں سے بیان کیا اب وہ محدثین کی اصطلاح میں دس اسانید اور طرق ہوگئے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اب  مسند اور صحیح، بلا تکرار احادیث کی تعداد محدثین کے راجح قول کے مطابق  نقل کی جاتی ہے:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے  امام ابوجعفر محمد بن الحسین بغدادی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ’’کتاب التمیز‘‘ میں امام سفیان ثوری، امام شعبہ بن الحجاج، امام یحییٰ بن سعید القطان، امام عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمد بن حنبل جیسے اکابر کا متفقہ بیان نقل کیا ہے:
"ذكرها الحافظ ابن حجر عن أبي جعفر محمد بن الحسين البغدادي أنه قال في "كتاب التمييز" له عن النووي وشعبة ويحيى بن سعيد القطان وابن مهدي وأحمد بن حنبل: إن جملة الأحاديث المسندة عن النبي صلى الله عليه وسلم: يعني الصحيحة بلا تكرر أربعة آلاف وأربعمائة حديث"۔

کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم  کی مسند اور صحیح بلا تکرار ارشادات کی تعداد صرف چار ہزار چار سو  (4400)ہے۔

توجيه النظر إلى أصول الأثر (1/ 230):
"قَالَ بعض أهل الْأَثر: إِن كثيراً من الْمُتَقَدِّمين كَانُوا يطلقون اسْم الحَدِيث على مَا يَشْمَل آثَار الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ وتابعيهم وفتاويهم، ويعدون الحَدِيث الْمَرْوِيّ بِإِسْنَادَيْنِ حديثين، وَحِينَئِذٍ يسهل الْخطب وَكم من حَدِيث ورد من مئة طَرِيق فَأكْثر وَهَذَا حَدِيث إِنَّمَا الْأَعْمَال بِالنِّيَّاتِ نقل مَعَ مَا فِيهِ عَن الْحَافِظ أبي إِسْمَاعِيل الْأنْصَارِيّ الْهَرَوِيّ أَنه كتبه من جِهَة سبع مئة من أَصْحَاب يحيى بن سعيد، وَقَالَ الْإِسْمَاعِيلِيّ عقب قَول البُخَارِيّ: لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب إِلَّا صَحِيحاً، وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر، إِنَّه لَو أخرج كل حَدِيث صَحِيح عِنْده لجمع فِي الْبَاب الْوَاحِد حَدِيث جمَاعَة من الصَّحَابَة وَلذكر طرق كل وَاحِد مِنْهُم إِذا صحت فَيصير كتاباً كَبِيراً جداً۔ وَقَالَ الجوزقي: إِنَّه استخرج على أَحَادِيث الصَّحِيحَيْنِ فَكَانَت عدَّة الطّرق خَمْسَة وَعشْرين ألف طَرِيق وَأَرْبع مئة وَثَمَانِينَ طَرِيقاً"۔
النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي (1/ 182):
"وَقد ذكر أَبُو الْعَرَب فِي مُقَدّمَة كِتَابه الضُّعَفَاء عَن عَليّ بن بَقِي قَالَ: سَأَلت يحيى بن سعيد الْقطَّان كم جملَة الْمسند؟ فَقَالَ لي: حصل أَصْحَابنَا ذَلِك وَهُوَ ثَمَانِيَة آلَاف حَدِيث وفيهَا مُكَرر، قَالَ: وَسمعت إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه يَقُول: سَأَلت جمَاعَة من أهل الْبَصْرَة عَن جملَة الْمسند الَّذِي رُوِيَ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالُوا: سَبْعَة آلَاف ونيف، وَعَن غنْدر سَأَلت شُعْبَة عَن هَذَا، فَقَالَ: جملَة الْمسند أَرْبَعَة آلَاف ونيف۔
وناظر عبد الرَّزَّاق إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه فِي ذَلِك، فَقَالَ إِسْحَاق: أَرْبَعَة آلَاف، وَقَالَ عبد الرَّزَّاق: أَقُول مَا قَالَه يحيى بن سعيد: الْمسند أَرْبَعَة آلَاف وَأَرْبَعمِائَة مِنْهَا ألف ومائتان سنَن وَثَمَانمِائَة (د 17) حَلَال وَحرَام وَأَلْفَانِ وَأَرْبَعمِائَة"۔

جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط (1/ 62):
" وَعَنْ أَبِي دَاوُدَ، قَالَ: نَظَرْتُ فِي الْحَدِيثِ الْمُسْنَدِ، فَإِذَا هُوَ أَرْبَعَةُ آلَافِ حَدِيثٍ"۔ 

توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 63):
"ذكرها الحافظ ابن حجر عن أبي جعفر محمد بن الحسين البغدادي أنه قال: في كتاب التمييز له عن النووي وشعبة ويحيى بن سعيد القطان وابن مهدي وأحمد بن حنبل: إن جملة الأحاديث المسندة عن النبي صلى الله عليه وسلم: يعني الصحيحة بلا تكرر أربعة آلاف وأربعمائة، حديث وعن اسحق بن راهوية أنه سبعة آلاف ونيف وقال أحمد بن حنبل: وسمعت ابن مهدي يقول: الحلال والحرام من ذلك ثمانمائة، وكذا قال اسحق بن راهويه عن يحيى بن سعيد، وذكر القاضي أبو بكر بن العربي أن الذي في الصحيحين من أحاديث الأحكام نحو ألفي حديث، وقال أبو بكر السختياني عن ابن المارك تسعمائة، وقال الحافظ: ومرادهم بهذه العدة ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم من أقواله الصريحة في الحلال والحرام، وقال كل منهم بحسب ما وصل أليه، ولهذا اختلفوا. والله أعلم".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں