بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یا مرحومین کی طرف سے حج و عمرہ یا طواف کرنا


سوال

الحمد للہ میں اور میری بیوی فرض حج ادا کرچکے ہیں، اس سال دوسرے حج کا ارادہ ہے، جو ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرنا چاہتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ اور اس کی نیت کیسے  کریں؟ اسی طرح آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرہ کا بھی بتادیں۔

دوسرا مرحومین کی طرف سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب

1-  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حج یا عمرہ کرنے کی صورت میں نیت درج ذیل طریقہ سے کی جائے کہ اے اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حج / یا عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں، اے اللہ میرے لیے آسان فرما اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قبول فرما۔ عمرے کے لیے عربی میں یوں نیت کریں:

"اللهم إني أريد العمرة من رسول الله صلي الله عليه وسلم فيسرهالي و تقبلها منه".

حج کے لیے عربی میں یوں نیت کریں:

"اللهم إني أريد الحج فيسره لي و تقبله منه".

پس حج یا عمرہ جو بھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کیا جا رہا ہو تو اس کے تمام افعال رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے ہی ادا کرنے ہوں گے۔

2-  کوئی بھی نفلی عبادت مرحومین کی طرف سے کرنا یا کرکے  اس کا ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے۔ مرحومین کے ایصالِ ثواب کی غرض سے عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی عمرہ اپنی نیت سے ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب مرحومین کو بخش دے، اسی طرح سے نفلی  قربانی اور تلاوتِ قرآنِ  مجید بھی کرکے ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ میری طرف سے قربانی کرنا، چناں چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے، اور امتِ محمدیہ میں وفات یافتگان، زندہ اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان داخل ہیں۔

مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"2528 - وعن أبي رزين العقيلي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن أبي شيخ كبير، لايستطيع الحج ولا العمرة ، ولا الظعن، قال : حج عن أبيك واعتمر". (رواه الترمذي وأبو داود والنسائي، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح )

" 2528 - ( وعن أبي رزين ) بفتح فكسر ( العقيلي ) أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن أبي شيخ كبير لايستطيع الحج ولا العمرة ) أي أفعالهما ، ( ولا الظعن ) أي الرحلة إليهما وهو بالسكون والفتح السفر، والمعنى انتهى به كبر السن إلى أنه لايقوى على السير ولا على الركوب ، ( قال : حج ) بالحركات في الجيم والفتح هو المعتمد، ( عن أبيك واعتمر ) دل على جواز النيابة، ثم اعلم أن العمرة سنة عندنا، وهو قول مالك ... وعن حديث أبي رزين بأنه عليه الصلاة والسلام إنما أمره بأن يحج ويعتمر عن أبيه وحجه، واعتماره عن أبيه ليس بواجب، مع أن قول أبي رزين: لايستطيع الحج ولا العمرة، يقتضي عدم وجوبها على أبيه، فيكون الأمر في حديث أبي رزين للاستحباب، كذا ذكره الشمني". ( رواه الترمذي وأبو داود والنسائي، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح) ، وأما قول ابن حجر - رحمه الله -: فيه دليل على جواز النيابة عن الميت، فغير متوجه، بل الوجه أن يقال: دل على جواز النيابة عن الحي فعن الميت بالأولى، كما لايخفى". ( ٥ / ١٧٥١)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:"الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا، لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ. (قَوْلُهُ: بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً..." الخ ( الشامية، بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ، مَطْلَبٌ فِي إهْدَاءِ ثَوَابِ الْأَعْمَالِ لِلْغَيْرِ، ٢ / ٥٩٥) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں