بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسوائی کے ڈر سے قبول کیے گئے مہر کا حکم


سوال

نکاح میں پانچ ہزار نقد رقم جو اسی وقت ادا کر دی گئی اور تین لاکھ روپے حق مہر عندالطلب لکھا گیا جو کہ نکاح سے پہلے نہیں بتایا گیا کہ یہ لکھنے ہیں، جب کہ نکاح کا پیپر جب لایا گیا تو اس کے اوپر لکھے ہوئے تھے تو اس وقت خاندان کی رسوائی کے ڈر سے دولہا نے سائن کردیے جب کہ دلہا کی طرف سے دلہا خود گواہ لکھا گیا ہے اور کوئی گواہ نہیں لکھا گیا تو کیا دولہا رقم ادا کرنے کا حق دار ہے؟ اور اگر طلاق سے پہلے یہ رقم ادا نہیں کی گی تو طلاق کے بعد یہ رقم ادا کرنے کا حق دار ہے یا نہیں؟ قرآن و سنت اور عدالت دونوں کے مطابق بتائیں؟

جواب

مذکورہ صورت میں جب شوہر نے کسی بھی وجہ سے خود ہی دستخط کردیے تو مذکورہ حصہ بھی مہر کا حصہ ہے، اور عند الطلب واجب بھی ہے۔  دولہا کی جانب سے کوئی گواہ نہیں لکھے گئے، لیکن بیوی کی جانب سے گواہ لکھے گئے،یا دیگر لوگ بطورِ گواہ موجود تھے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا تھا۔

اگر طلاق  رخصتی سے پہلے ہوئی تو  پورے مہر کا آدھا واجب الادا ہے ، اور اگر رخصتی  یا خلوتِ صحیحہ  کے بعد ہوئی تو مکمل مہر کی ادائیگی شرعاً لازم ہے۔

"المهر في اللغة: صداق المرأة وهو ما یدفعه الزوج إلیٰ زوجته بعقد الزواج". (الشامية ۴ ؍ ۲۳۰ )

"وشرط حضور شاهدین ... ولو فاسقین ..." الخ  ( الدر المختار ۴ ؍ ۷۳-۷۵ بیروت)

عدالت اور قانون  کی رائے کے سلسلے میں کسی وکیل سے راہ نمائی لی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں