بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رجوع الی اللہ کا مطلب


سوال

رجوع الی اللہ کا کیا مطلب ہے؟

جواب

 ’’رجوع الی اللہ‘‘ کی اصطلاح عرف میں اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے ذریعے رجوع کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، لہٰذا مؤمن کے لیے جب ’’رجوع الی اللہ‘‘  کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کا اپنے پچھلے گناہوں سے معافی مانگنا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اس پر جو ذمہ عائد ہوتے ہیں اس کی تلافی کی نیت کرنا اور آئندہ زندگی میں فرائض، واجبات  ادا کرنے اور حرام چیزوں سے بچنے کی پابندی، نیز سنن، نوافل ادا کرنے اور مکروہات سے بچنے کا اہتمام کرنے کی نیت کرنا۔ اور غیر مسلم کے لیے ’’رجوع الی اللہ‘‘ کا لفظ استعمال ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اپنی گزشتہ نافرمانی اور کفر و شرک والی زندگی سے تائب ہوکر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکامات کی طرف لوٹنا۔

البتہ قرآنِ مجید میں ’’رجوع الی اللہ‘‘ کا لفظ ایک اور معنیٰ میں بھی استعمال ہوتاہے، یعنی جب کائنات کی چیزوں کے متعلق ’’رجوع الی اللہ‘‘  کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اگرچہ ظاہری طور پر انسانوں کی حکومت اور دنیوی چیزوں کا انسانوں کی ملکیت میں ہونا نظر آتا ہے، لیکن ایک وقت آئے گا (یعنی آخرت میں) جب انسان کے یہ تمام ظاہری اختیارات  بھی ختم ہوجائیں گے اور ہر چیز صرف اللہ کے حکم اور اختیار میں چلی جائےگی۔

تفسیر عثمانی میں ہے :

’’رجوع الی اللہ کے فوائد : جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لیے خدا کی طرف دل سے رجوع ہو تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گزرے ۔۔۔الخ‘‘

(دار الاشاعت، ج۲، ص۱۱۸)

الكبائر للذهبي (1 / 186):

’’وإنا إليه راجعون بالهلاك وبالفناء ومعنى الرجوع إلى الله الرجوع إلى انفراده بالحكم إذ قد ملك في الدنيا قوماً الحكم فإذا زال حكم العباد رجع الأمر إلى الله عز وجل‘‘. 

ارشادِ باری تعالیٰ  ہے: {وَاِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّه}فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں