بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راہ چلتے، مساجد اور بازاروں میں مانگنے والے فقیرں کے ساتھ تعاون کا حکم


سوال

ان دنوں ہمارا سامنا ایسے افراد سے پڑتاہے جو اپنی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں اور مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ مسجد ہو یا بازار، سڑکوں اور دکانوں پر،اور بسوں میں یعنی ہرجگہ۔ ان میں بڑے بھی ہیں اور بچے بھی۔ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ وہ فرد کیا۔ فریبی ہے۔ گداگر، یا محض مجبور سائل۔ وہ اللہ تعالی ٰ کے نام پر مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے؟ بعض افراد ان کومنع کرتے ہیں۔ سختی سے پیش آتے ہیں اور جھڑک دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ بعض سوالی ایسے بھی ہوتے ہیں جو مطالبہ پورا نہ ہونے پر بدگمان ہوجاتے ہیں اور بددعادیتے ہیں۔ کیا اس بدعا کی اللہ تعالی ٰ کے یہاں پذیرائی ہوتی ہے؟ بعض افراد ان سائلوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اپنے آپ کو صرف ان کی مدد تک محدود رکھتے ہیں جن کے حالات سے وہ واقف ہوتے ہیں۔ کیا ان کا طرز عمل درست ہے؟

جواب

 جس شخص کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو یا کمانے کی قدرت رکھتا ہو اس کا خوراک کے لیئے سوال کرنا حرام ہے اور اس کو دینا بھی جائز نہیں ، دوسری ضروریات لباس وغیرہ کو بھی اسی پر قیاس کرلیا جائےکہ بقدر ضرورت موجود ہونے کی صورت میں ان کا سوال کرنا حرام ہے،ا آج کل جگہ جگہ جو مانگنے والے ہوتے ہیں عموما یہ لوگ پیشہ ور ہوتے ہیں بلکہ بعض مرتبہ تو خود صاحب نصاب بھی ہوتے ہیں، اس لیئے جب تک ان کے ضرورت مند ہونے کا یقین نہ ہوجائے ان کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیئے، البتہ ان کو جھڑکنے کے بجائے  خوش اسلوبی سے منع کردینا چاہیئے، باقی ان سائلین تعاون نہ کرنے پر بدگمان ہوکر بددعائیں دینے سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ،اس لیئے کہ کسی کی بددعاء دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی قبولیت بھی لازم ہے، خصوصا جب کہ بددعاء میں ظلم وزیادتی کا عنصرشامل ہو تواسکی قبولیت کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی کی ذات بہت منصف وباحکمت ہے، تو جس طرح اللہ تعالی کسی ظالمانہ فعل کو ناپسند کرتا ہے اس طرح مظلوم کی زیادتی اور حدود سے تجاوز بھی ناپسند کرتا ہے،اور ان سائلین کا تعاون نہ کرنے پر بدعا دینا بھی ظلم ہے۔  رہی ان لوگوں کی بات جو اپنی مدد کے دائرہ کو انہی  تک محدود رکھتے ہیں جن کے حالات سے وہ واقف ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال میں جب کہ حقیقی اور مصنوعی ضرورت مندوں میں فرق مشکل ہے، ان کا یہ طرز عمل درست ہے۔واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143704200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں