مجھے دس ہزارروپے روڈ سےملے ہیں، اب میں ان کو کس کے حوالے کروں؟
راستے میں پڑی ہوئی رقم’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہوتی ہے، اس کا تفصیلی حکم یہ ہے کہ جس شخص کو ایسی رقم ملے تو اس رقم کی حتی الامکان تشہیر کرے،یعنی لوگوں کو اطلاع دے دے کہ کسی کی رقم گم ہوگئی ہو تو مجھ سے وصول کرلیں، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس رقم کو محفوظ رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ رقم کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگراٹھانے والا خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم کے مطالبے کا اختیار حاصل ہوگا۔
"وللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر". (ملتقي الأبحر : ١/ ٥٢٩-٥٣١)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن