بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان دار کا مکینک کو کمیشن دینا


سوال

میں ایک الیکٹرک مکینک ہوں ،میں اپنے خریداروں کو اپنے ایک جان پہچان والے دکان دار کے پاس لے جا کر بہترین سامانِ بجلی کی نشان دہی کر کےدیتا ہوں اور اگر کچھ ادھار رہتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی میں ہی لیتا ہوں۔ اس سارے عمل کے عوض میرا دکاندار سے معاہدہ ہے کہ وہ مجھے  بھیجے ہوئے مال  کی کل رقم میں سے پانچ فیصد دیتا ہے، کیا میرے  لیے ایسا کرنا جائز ہے؟گاہک کو معلوم نہیں ہوتا!

جواب

مارکیٹ میں جو افراد  فری لانس مختلف دکانوں یا کمپنیوں کا مال کسی اور کو دلواتے یا خریدواتے ہیں اور درمیان میں اپنامقررہ یا معروف کمیشن وصول کرتے ہیں، ان کا یہ کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے؛ لہذا مذکورہ صورت میں آپ کا مختلف افراد کو بجلی کے سامان کی خریداری میں عملی معاونت  کے بدلہ میں دکان دار   سے پہلے سے طے کرکے اس کی جانب سے دیاجانے والا مقررہ کمیشن  لینا درست ہے، اس معاملہ کا گاہک کو معلوم ہونا ضروری نہیں۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ ... "الخ

(مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

’’وَ أَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں