بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کی مشہوری کی قیمت لینا


سوال

ایک شخص کی دکان ہے، اس نے کرایہ پر دی ہے، اب جس کو کرایہ پر دی ہے وہ آدمی دکان کا سامان جو اس کا اپنا ہے  کسی دوسرے  شخص پر دکان سمیت فروخت کرتا ہے، اب وہ کہہ  رہاہے کہ چوں کہ میں نے اس جگہ کو جمایا (مشہورکیا)ہے اس لے اس کے بھی پیسے مجھے دو ،کیا اس بات کے پیسے لینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کرایہ دار ،جس چیز کو کرایہ پر لیتا ہے وہ اس کی ملکیت میں شامل نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالک کی ملکیت میں برقرار رہتی ہے، لہذااگر آپ کے سوال میں "دکان سمیت فروخت " کرنے سے مراد سامان کے ساتھ دکان کو بیچنا ہے تو مذکورہ کرایہ دار دکان کو کسی دوسرے شخص پر فروخت  نہیں کرسکتا، ا س لیے کہ یہ کرایہ دار سامان کامالک ہے دکان کا مالک نہیں۔ البتہ   یہ کرایہ دار اس دکان میں تجارت کے لیے جو سامان خرید کر لایا تھا وہ سامان  کسی دوسرے شخص پر فروخت کرنا اور مالک کی اجازت سے وہ دکان کسی دوسرے کو کرایہ پر دیناجائز ہے، تاہم کرایہ دار کا یہ کہنا کہ چوں کہ میں نے یہ دکان آباد کی ہے لہذا دکان کی ساکھ کی قیمت بھی مجھے دی جائے، یہ مطالبہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ دکان کی آبادی یانام کا مشہور ہوجانا جسے عرف میں (good will) کہاجاتاہے یہ شرعی اعتبار سے مال نہیں ہے، اس لیے اس کے عوض میں قیمت کا لینا بھی جائز نہ ہوگا، اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’گڈول یعنی ’’نام‘‘ درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیتِ عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جوبھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے‘‘۔(فتاوی محمودیہ 16/178)

البتہ اس کے متبادل یہ صورت درست ہے کہ کرایہ دار اپنے سامان کی قیمت کچھ  بڑھادے اور خریدار اس شخص کو سامان کی قیمت باہمی رضامندی سے کچھ زیادہ اداکردے۔

الاشباہ والنظائر میں ہے :

"الحقوق المجردة لايجوز الاعتياض عنها". (1/212)

فتاوی شامی میں ہے :

’’وفيها: وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف‘‘. (4/518) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں