بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے گاؤں جاکر بچوں کو قرآنِ مجید پڑھانے کی فیس لینا


سوال

ہمارے گاؤں کے قریب ایک چھوٹی سے آبادی ہے، جہاں کوئی تلفظ سے قرآنِ پاک پڑھانے والا آدمی موجود نہیں ہے, انہوں نے ہمارے گاؤں کے قاری صاحب سے کہا ہے کہ آپ ہمارے بچوں کو پڑھانے آ جایا کریں، گاؤں کا سفر تقریباً پانچ کلو میٹر بنتا ہے اور ان قاری صاحب نے ان سے آنے جانے کے خرچے کی مد میں کچھ پیسے طے کیے ہیں (فی بچہ 1500) کیا اس صورتِ حال میں پیسے لینا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ قاری صاحب اپنا وقت دینے اور گاؤں آنے جانے کی مشقت اور خرچے  کے  بدلے بچوں کو پڑھانے کی فیس مقرر کریں تو یہ جائز ہے، البتہ ان کو چاہیے کہ وہ پڑھانے میں اپنا مقصود پیسہ نہ رکھیں، بلکہ اصل مقصود اللہ کی رضا ہو۔ نیز تنگ دست والدین کے بچوں کے ساتھ حسبِ استطاعت مالی رعایت بھی کرلیں تو ان کے لیے اجر وثواب کا باعث ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (8/ 22):
"قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن)، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں