بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی زمین میں اس کی اجازت سے اپنے لیے درخت لگانا


سوال

ایک شخص نے کزن کی زمین پر درخت لگائے، کزن کی زندگی میں درخت لگانے والے صاحب درختوں کو کاٹ کر استعمال بھی کرتے تھے، اب درخت لگانے والے اور زمین کے مالک کزن فوت ہوگئے، شرعاً ان درختوں کا مالک کون ہے؟  صاحبِ زمین کی اولاد یا درخت لگانے والے کی اولاد؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر درخت لگانے والے نے اپنے کزن کی  زمین میں اپنے لیے درخت لگائے تو وہ درخت، درخت لگانے والے  ہی کی ملکیت شمار ہوں گے،  اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کا حصہ شمار ہوگا، اور زمین بدستور مالکِ زمین کے ورثاء کی ملکیت میں رہے گی۔ اب زمین کے مالک، درخت والوں سے کہہ سکتے ہیں  آپ اپنے درختوں کو نکال کر لے جاؤ، یا ان کو اکھڑے ہوئے درختوں کی قیمت دے کر خود درخت ان سے لے لیں، یا درخت لگانے والے کے ورثاء زمین کے مالک کے ورثاء  کو ان درختوں کی قیمت دینے پر راضی کرلیں، بہتر یہ ہے کہ باہمی رضامندی ومفاہمت سے درختوں کی مناسب قیمت طے کرکے درختوں کے مالکوں سے اس کو خرید لینا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها.

(قوله: عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف بخلاف أجنبي بنى في ملك غيره (قوله: والنفقة دين عليها) لأنه غير مقطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها، فصار كالمأمور بقضاء الدين زيلعي، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع". (6/747، مسائل شتی، ط؛ سعید)

وفیہ  ایضا:

"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه)

(قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير". (6/194، کتاب الغصب، ط؛ سعید)

وفیہ  ایضا:

"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك، بزازية.
(قوله: بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله: وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.
أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك، تأمل". 
(6/ 268) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں