بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے ملک کے باشندوں کی طرف سے قربانی کرنا، قربانی کی قضا، ایک شریک کی قربانی نہ ہونے کی صورت میں بقیہ شرکاء کاحکم


سوال

1۔ میرے ایک عزیز بیرونِ ملک مقیم ہیں،  ایامِ عید الاضحی میں انہوں نے مجھے برما (میانمار) میں ان کی طرف سے قربانی کرنے کا وکیل بنایا،  میں نے برما میں بارہ (12) ذوالحجہ کے دن قربانی کی، جب کہ بیرونِ ملک میں مقیم عزیز  کے ہاں اس دن تیرہ (13) ذوالحجہ تھی۔ اربابِ فتاوی سے میرا سوال یہ ہے کہ:

کیا میرے عزیز  کی طرف سے کی جانے والی قربانی اس کی طرف سے ادا ہو گئی؟

2۔ اگر نہیں تو  اب ان کے لیے کیا حکم ہے؟

3۔ اسی طرح میں نے ان کے لیے اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالا تھا، اب اگر ان کی طرف سے قربانی ادا نہیں ہوتی تو دیگر شرکاء  کی قربانی کا کیا حکم ہے؟  میں نے سنا ہے کہ: ان امور میں تجزی نہیں ہوتی، تو کیا اگر میرے عزیز کی طرف سے قربانی ادا نہیں ہوئی تو دیگر شرکاء کی طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی؟

جواب

1- اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ لہذا جب بیرونِ ملک  جہاں آپ کے عزیز جن کی طرف سے قربانی کی جارہی تھی ان کے ہاں 13 ذی الحجہ تھی، یعنی ایامِ نحر  (قربانی کے دن) ختم ہوچکے تھے؛ لہذا ان کی قربانی نہ ہوئی ۔

2-  جب قربانی نہیں ہوئی تو اب  آپ کے عزیز  کے ذمہ ہے کہ ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کردے۔

3- باقی شرکاء  کی قربانی ہوگئی، ان کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؛ اس لیے کہ سب شرکاء کی نیت قربت کی ہی تھی۔ اگر کسی کی نیت قربانی کے بجائے گوشت کی ہو، یا کسی ایک کا مال حرام ہو، تو دیگر شرکاء کی قربانی متاثر ہوتی ہے۔

جیساکہ ’’شرح العنایۃ علٰی ہامش فتح القدیر‘‘ میں ہے:

’’فلایجوز في لیلة النحر ألبتة لوقوعها قبل وقتها لا في لیلة التشریق المحض لخروجه‘‘.  (الأضحیة، ج:۸، ص:۴۳۲، ط:رشیدیه)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 74):

"وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لايذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.

(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولايدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغةً، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لاتتبع النهار المستقبل، فلاتدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم".

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"لو أرادوا القربة -الأضحیة أو غیرها من القرب- أجزأهم سواء کانت القربة واجبةً أو تطوعًا أو وجب علی البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت". (الفتاوی الهندیة: ۳۰۴/۵)

فتاوی ٰ شامی میں ہے :

"وشمل ما لو کانت القربة واجبةً علی الکل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا". (رد المحتار: ۳۲۶/۶، ط: دار الفکر، بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں