بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے شہر میں ملازمت کی صورت میں وہاں نماز کے قصر کا حکم


سوال

میں بنوں کا مستقل رہائشی ہوں اور اب میری نوکری بنوں سے 220 کلو میٹر دور پشاور شہر میں ہے، جہاں پر میں صرف پیر کے دن جاتا ہوں اور جمعے کے دن دوپہر کو بنوں واپس آ جا تا ہوں، (ہر ہفتہ، اتوار) تو کیا میں سفرانہ کی نماز ادا کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ اگر پیر کے دن پشاور جاکر صرف چار یا پانچ دن گزار کر واپس اپنے وطنِ اصلی (بنوں) آجاتے ہیں تو آپ پشاور میں قصر (سفرانہ) نماز پڑھیں گے، البتہ اگر آپ ایک دفعہ بھی پشاور میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے وہاں مقیم ہوجاگئے تو پشاور آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گا، پھر جب تک نوکری کے سلسلے میں وہاں آپ کا آنا جانا لگا رہے گا اس وقت تک آپ پشاور میں ہمیشہ پوری نماز پڑھیں گے، چاہے تین، چار دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147)

'' كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ۔۔۔ وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر''۔

(باب صلاۃ المسافر ،ج:۴/ ۱۱۲ ،ط:سعید )فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں