بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے دوکاندار سے لاکر سامان بیچنا


سوال

آج کل مختلف مارکیٹوں میں یہ ہوتا ہے کہ چیز دوکان دار کے پاس موجود نہیں ہے، لیکن وہ گاہک کو کسی اور دوکان سے لاکر دے دیتا ہے، جب کہ ابو داؤد میں صریح حدیث ہے کہ "لا تبع ما ليس عندك" تو اب اس سودے  کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر ’’مبیع‘‘  (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ  کسی کو وہ سامان فروخت کرتے ہوئے یوں کہے کہ ’’فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی‘‘،  وغیرہ،  اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں ’’مبیع‘‘  موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔  سوال میں ذکر کردہ حدیث سے مقصود یہی صورت  ہے۔

  البتہ اگردوکان دار   یوں نہیں کہتا کہ میں نے یہ چیز بیچ دی، بلکہ کسی اور  دوکان سے مطلوبہ چیز لاکر پھر گاہک سے سودا کرتا ہے، پہلے سے سودا نہیں کرتا ، جیسا کہ آج کل رائج ہے تو یہ  صورت بلا قباحت  جائز ہے ؛ اس لیے کہ اس میں دوکان دار  دوسرے دوکان دار سے مطلوبہ چیز خرید کر پھر بیچ رہا ہے یا بائع اس شخص یا کمپنی  سے جس کے پاس مطلوبہ  سامان ہے، پہلے  سے معاملہ  کرلیتا ہے  کہ میں آپ کا سامان بیچوں گا اس میں میرا اتنا کمیشن ہے تو یہ صورت بھی جائز ہے ، اس صورت میں بائع اس شخص یا کمپنی کا نمائندہ ہوجائے گا اور مذکورہ حدیث کے تحت داخل نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں