بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی


سوال

میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، میری جب پہلی دفعہ منگنی ہو رہی تھی تب ہی میں نے اپنے والدین کو منع کیا تھا کہ آپ جس جگہ میری منگنی کرارہے ہیں یہ جگہ پسند نہیں  ،مجھے فلاں لڑکی پسند ہے ، میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے والدین نے مجھ پر زبردستی کر کے میری منگنی پھر شادی کرادی، میری شادی کو 7سال ہوگئےہیں، جس لڑکی سے میں شادی کرنا چاہتا تھا وہ لڑکی 7سال گزرنے کے  باوجود بھی میرے انتظار میں بیٹھی  ہوئی ہے اور میں بھی اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اس کی والدہ اور بھائی وغیرہ بھی راضی ہیں، لیکن میرے والدین اس بات کو ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ؛ لہذا مجھے کوئی اسلامی طریقہ اپنانے کو بتائیں۔ 

جواب

زوجین میں باہمی الفت و محبت کا ہونا اچھی ازدواجی زندگی کا لازمی حصہ ہے، سائل  کو چاہیے کہ جس بیوی کےساتھ سات سال گزارے ہیں اسی کے ساتھ محبت و الفت قائم کرے اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

باقی اگر آپ  دو بیویوں کے جسمانی اور مالی حقوق ادا کرنے اور ان دونوں کے درمیان برابری رکھنے کی استطاعت  رکھتے ہیں تو  آپ  کے لیے دوسری شادی کرنا شرعاً جائزہوگا۔ شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، لیکن اس وقت جب کہ شوہر تمام بیویوں کے حقوق میں برابری کرے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:3)

اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے.( بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں. "سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل" ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر اگر آپ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے، اس پر والدین کی ناراضی درست نہیں، تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر والدین اور اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لے کر راضی کرلیں  تو بہتر ہے ؛تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں.

اور اگر دوسری شادی کے لیے آ پ کے پاس مالی یا جسمانی طاقت نہیں یا دوسری شادی کے بعد بیویوں میں برابری نہ کرسکیں گے تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں