بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی


سوال

میں شادی شدہ ہوں اور میرے تین بچے ہیں اور ایک اچھی آئل اور گیس کمپنی میں بھاری آمدنی کماتا ہوں،  میرے ایک رشتہ دار کا 2017 میں 25 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ اس کے ورثاء میں بیوہ اور دو بچے ہیں۔ اس بیوہ نے اب تک کسی سے شادی نہیں کی ؛ کیوں کہ رشتے نہیں ہیں۔ مجھے اکثر اس کا خیال آتا ہے اور شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے ؛ کیوں کہ ہمارے دین میں یہ تعلیم ہے کہ "اگر آپ کسی بیوہ کو جانتے ہیں اور اس سے شادی کر سکتے ہیں اور پھر بھی نہ کریں تو یہ ایک گناہ ہے"۔ اب اگر میں اس سے دوسری شادی کرلیتا ہوں تو میری والدہ مجھ پر ناراض ہوجائیں گی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ بھی فکر ہے کہ میں دونوں بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرسکوں گا۔ آپ میری راہ نمائی کریں کہ میں دوسری شادی کے لیے قدم اٹھا لوں یا اپنی آنکھیں بند کرلوں یہ جانتے ہوئے کہ وہ بیوہ اکیلی ہی زندگی گزارے گی؟

جواب

قرآنِ مجید میں سورۂ نساء کی آیت نمبر 3 سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں. حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جب آپ کو دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق برابری کے ساتھ پوری طرح ادا کرنے کا اپنے آپ پر اطمینان نہیں ہے تو آپ دوسری شادی نہ کریں۔

باقی بیوہ اگر شادی نہ کرے، اور پاک دامنی کے تحفظ کے ساتھ بچوں کی تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے تو حدیثِ مبارک میں ایسی بیوہ کی بہت فضیلت آئی ہے، لہٰذا بیوہ کے دوسری شادی کرنے کا تعلق اس کے اپنے ذاتی احوال سے ہے، امید ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مذکورہ بیوہ کے رشتے  یا سہارے کی کوئی سبیل بنادیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح نہ کرکے گناہ گار نہیں ہوں گے۔

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ [النساء:3]

اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے.( بیان القرآن )

 "سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل". ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں