بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ ولادت نماز کا حکم


سوال

بہشتی زیور میں ہے کہ اگر ولادت کے وقت  بچہ آدھا پیٹ کے اندر ہو اور آدھا باہر ہو  تب بھی اس عورت کو نماز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

بہشتی زیور کی مکمل اور درست عبارت یہ ہے:

مسئلہ: " آدھے سے زیادہ بچہ نکل آیا،  لیکن ابھى پورا نہیں نکلا  اُس وقت جو خون آئے وہ بھى  نفاس ہے اور  اگر آدھے سے کم نکلا تھا اس وقت خون آیا تو  وہ استحاضہ ہے،  اگر ہوش و حواس باقى ہوں تو اس وقت بھى نماز پڑھے،  نہیں تو  گناہ گار ہوگى،  نہ ہو سکے تو اشارہ ہى سے پڑھے،  قضا نہ کرے،  لیکن اگر نماز پڑھنے سے  بچہ  کا ضائع ہو جانے کا ڈر ہو تو نماز نہ پڑھے۔"

اس عبارت میں یہ مسئلہ سمجھایا گیا ہے کہ بچے  کی پیدائش کے دوران اگر بچے کے  جسم کا آدھے سے کم حصہ باہر آیا ہو  تو اس حالت میں عورت کو  جو  خون آتا ہے وہ نفاس نہیں ہوتا، اور نماز  چوں کہ نفاس  کے خون جاری ہوجانے کے بعد  معاف ہوتی ہے، اس سے پہلے معاف نہیں ہوتی؛  اس  لیے اگر اس حالت میں بھی نماز پڑھنا ممکن ہو تو ضرور پڑھنی چاہیے، خواہ اشارہ سے ہی پڑھ لے، ہاں! اگر نماز پڑھنے کی بنا  پر  بچے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو  یا شدید تکلیف لاحق ہونے کی وجہ سے اشارے سے بھی نماز نہ پڑھ سکتی ہو تو  اس وقت نہ پڑھے، بعد میں قضا پڑھ لے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں