بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ جنگ قصر کرے یا اتمام؟


سوال

پاک فوج بعض اوقات کسی جگہ آپریشن کرتی ہے، اگر عین جنگ  کے موقع پر نماز کا وقت داخل ہو تو کیا نماز پوری پڑھے یا قصر کرے  جب کہ مسافت سفر بھی نہ ہو؟

جواب

اگر مسافر نہ ہو تو اس صورت میں پوری نماز پڑھی جائے گی۔ البتہ اگر فوج کا پڑاؤ،  اپنے ملک سے باہر کسی جگہ ہو اور حالتِ جنگ ہو تو ایسی صورت میں قصر کی جائے گی۔ نیز  مسافتِ سفر پر پڑاؤ اگر حالتِ امن میں ہو اور  پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو بھی قصر کی جائے گی۔ اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو نماز پوری پڑھی جائےگی۔

اور اگر اپنے ہی مقام میں بغاوت ہو یا کسی جگہ کا محاصرہ کیا ہو  تو ایسی صورت میں پوری نماز پڑھی جائے گی۔ نیز اگر اپنے ملک میں شہر سے باہر باغیوں نے محاصرہ کیا ہو تو اس صورت میں قصر پڑھی  جائےگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 127):

"يصلي ركعتين (عسكر دخل أرض حرب أو حاصر حصناً فيها) بخلاف من دخلها بأمان؛ فإنه يتم (أو) حاصر (أهل البغي في دارنا في غير مصر مع نية الإقامة مدتها)؛ للتردد بين القرار والفرار".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں