بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ اعتکاف عورت کی بات چیت اور آواز کا حکم


سوال

اعتکاف میں عورت کی آواز کتنی ہونی چاہیے؟ کیا وہ پردے یعنی چادر کے پیچھے بیٹھے ہوؤں سے بات کر سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے عورت کے اعتکاف کے لیے مختص کی گئی جگہ عورتوں کے حق میں  ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، عورت کے لیے اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہے، نیز اعتکاف کے دوران زیادہ وقت ذکر و اذکار،  تلاوتِ کلامِ مجید، عبادات اور اللہ کو راضی کرنے والے دیگر اعمال میں مشغول رہنا چاہیے، فضول بات چیت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تاہم معتکف ضرورت کی بات چیت، خیر اور بھلائی کی باتیں کرسکتاہے۔

بصورتِ مسئولہ معتکفہ ضرورت کی بات چیت خیر اور بھلائی کی باتیں آواز بلند کیے بغیر کرسکتی ہے، نیز  پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا شخص اگر غیر محرم ہے  تو  آواز میں نرمی پیدا کیے بغیر صاف اور سیدھی بات کرے جس سے مخاطب کے دل میں کسی قسم کی طمع یا میلان پیدا نہ ہو، جائز ہے۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمرأة تعتكف في مسجد بيتها، إذا اعتكفت في مسجد بيتها فتلك البقعة في حقها كمسجد الجماعة في حق الرجل، لاتخرج منه إلا لحاجة الإنسان، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي".

(الباب السابع فی الاعتکاف، ج:1 ص:311 ط: مکتبه حقانیه)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فإن المرأة لاتجهر بها بل تقتصر على إسماع نفسها. وقال ابن رشد: أجمع أهل العلم على أن تلبية المرأة فيما حكاه أبو عمر هو أن تسمع نفسها بالقول. وفي الدر المختار: ولاتلبي جهرًا بل تسمع نفسها دفعًا للفتنة". (مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (8 / 1000)

تفسیر مظھری میں ہے:

"قال البغوي كانت المرأة إذا مشت ضربت برجلها لتسمع صوت خلخالها فنهيت عن ذلك؛ لأنه يورث في الرجال ميلاً إليها. قال البيضاوي: وهو أبلغ من النهى عن إبداء الزينة وأدل على المنع من رفع الصوت لها، ولذا صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليها أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إليّ؛ لأن نغمتها عورة، ولذا قال عليه السّلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء. متفق عليه من حديث سهل بن سعد. فلايحسن أن يسمعها الرجل، قال ابن همام: وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت المرأة بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا".

(المظهرى ـ (1 / 2713)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109203160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں