بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو یا چند حفاظ مل کر ترایح پڑھائیں تو امام کی تبدیلی ترویحہ مکمل ہونے پر ہو یا دس دس رکعت پر؟


سوال

کتبِ  فقہ میں لکھا ہے کہ اگر چند حفاظ تراویح پڑھا رہے ہوں تو تبدیلی ترویحہ پر ہو،اور دلیل”لعادة أهل الحرمین“لکھی ہے،اب جب حرمین میں دس رکعت پر تبدیلی ہوتی ہے تو کیا اوپر والے مسئلہ میں کوئی فرق آئےگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

جواب

تراویح کی ادائیگی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ امام مقتدیوں کو دو دو رکعت کرکے  بیس رکعت پڑھائے،  اور ہر چار رکعت کے بعد  کچھ دیر کے لیے وقفہ کرے، اس وقفہ کو  "ترویحہ"  کہتے ہیں، اہلِ مکہ کی عادت یہ تھی کہ ہر چار رکعت کے بعد وقفہ میں طواف کیا کرتے تھے، اور  اہلِ  مدینہ کی عادت یہ تھی کہ وہ ہر چار رکعت کے بعد چار رکعت نفل ادا کرتے تھے، اور  ترویحہ کے اصلی مصدری معنی استراحت کے ہیں، جو راحت سے بنا ہے، چوں کہ  بیس رکعت میں پانچ ترویحہ ہوتے ہیں اس لیے اس نماز کو "تراویح"  کہا جاتا ہے، جب کہ ہر دو رکعت کے بعد وقفہ کرنا پسندیدہ نہیں ہے،  اس سے معلوم ہوا کہ ہر ترویحہ کی ایک مستقل حیثیت ہے۔ یہی وجہ ہے  اگر تراویح دو حافظ مل کر پڑھائیں تو  اس میں بہتر اور مستحب  یہ  ہے امام کی تبدیلی ایک ترویحہ مکمل ہونے پر ہو، ایک تو اس لیے کہ ہر ترویحہ کی ایک مستقل حیثیت ہے، دوسرا یہ ترویحہ کے درمیان میں (یعنی دو رکعت پر)  امام کی تبدیلی ایسی ہی ہے جیسے  دو رکعت کے بعد وقفہ کرنا، اور یہ پسندیدہ نہیں ہے۔

علامہ کاسانی  رحمہ اللہ نے اس علت کی صراحت  کی ہے،  نیز سلفِ  صالحین کا بھی یہی عمل رہا ہے، اور سلفِ  صالحین کے عمل کے مطابق  اہلِ  حرم کا بھی عمل رہا ہے، اہلِ  حرم کا عمل اس کا مؤید ہے،  ورنہ  اس کی اصل بنیادی علت اور وجہ دوسری  ہے، بالفرض اگر کوئی علت نہ بھی ہو،  تب  بھی استحباب  کے درجہ کے لیے سلف کا عمل ہونا کافی ہے، لہذا اگر  حرم میں  اب  اس پر عمل نہ بھی ہو، تب بھی وہی طریقہ  بہتر اور افضل ہوگا۔ باقی ترویحہ کے درمیان امام کی تبدیلی جائز تو ہے، لیکن یہ پسندیدہ نہیں ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 456):

"و أما الكلام في كيفيته أدائها، روي الحسن بن زياد عن أبي حنيفة رحمة الله عليهما أن الإمام يصلي بالقوم ويسلم في كل ركعتين، وكلما يصلي ترويحة ينتظر بعد الترويحة قدر ترويحة، وينتظر بعد الترويحة الخامسة قدر ترويحة ويوتر بهم والانتظار بين كل ترويحتين مستحب بقدر ترويحة عند أبي حنيفة رحمه الله. وعليه عمل أهل الحرمين، غير أن أهل مكة يطوفون بين كل ترويحتين أسبوعا، وأهل المدينة يصلون بدل ذلك أربع ركعات، وأهل كل بلدة بالخيار يسبحون أو يهللون أو ينتظرون سكوتا، وهل يصلون؟ اختلف المشايخ، ومنهم من كره ذلك فكان أبو القاسم الصفار وإبراهيم بن يوسف، وخلف وشداد رحمهم الله، لا يكرهون ذلك، وكان إبراهيم بن يوسف يقولون: ذلك حسن جميل، وأما الانتظار والاستراحة على رأس خمس تسليمات، فقد اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: لا يكره، وعامتهم على أنه يكره؛ لأنه يخالف أهل الحرمين.
وإذا صلى كل تسليمة إمام على حدة حتى يصير لكل ترويحة إمامان، فقد جوزه وبعض المشايخ. وعامتهم على أنه مكروه، وينبغي أن يؤدي كل ترويحة إمام على حده، وهو عمل أهل الحرمين و غيرهم."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 289):

"و منها أن يصلي كل ترويحة إمام واحد، وعليه عمل أهل الحرمين، وعمل السلف و لايصلي الترويحة الواحدة إمامان؛ لأنه خلاف عمل السلف، ويكون تبديل الإمام بمنزلة الانتظار بين الترويحتين، وأنه غير مستحب."

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 178):

"قال - رحمه الله -: (وسن في رمضان عشرون ركعة بعشر تسليمات بعد العشاء قبل الوتر وبعده بجماعة والختم مرة وبجلسة بعد كل أربع بقدرها) أي بعد كل أربع ركعات بقدر الأربعة الكلام في التراويح في مواضع الأول في صفتها وهي سنة عندنا رواه الحسن عن أبي حنيفة نصا وقيل مستحب والأول أصح؛ لأنها واظب عليها الخلفاء الراشدون والثاني في عدد ركعاتها وهي عشرون ركعة وعند مالك ست وثلاثون ركعة واحتج على ذلك بعمل أهل المدينة ولنا ما روى البيهقي بإسناد صحيح أنهم كانوا يقومون على عهد عمر -رضي الله عنه - بعشرين ركعة وعلى عهد عثمان وعلي مثله فصار إجماعًا وما رواه مالك غير مشهور، وهو محمول على أنهم كانوا يصلون بين كل ترويحتين مقدار ترويحة فرادى كما هو مذهب أهل المدينة على ما يأتي بيانه إن شاء الله تعالى."

البناية شرح الهداية (2/ 560):

"إذا صلى الترويحة الواحدة إمامان كل واحد بتسليمة قيل لا بأس به، والصحيح أنه لا يستحب ذلك، ولكن كل ترويحة يؤديها إمام واحد

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 73):

"و في الخلاصة إذا صلى الترويحة الواحدة إمامان كل إمام ركعتين اختلف المشايخ والصحيح أنه لا يستحب ولكن كل ترويحة يؤديها إمام واحد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں