بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو حدیثوں میں موازنہ کی صورت


سوال

کیا  دو مختلف حدیثوں  کا موازنہ اِس بات سے کرنا چاہیے کہ اس حدیث کے کتنے راوی ہیں؟ اِس حوالے سے راہ نمائی فرمائیں احادیث کی روشنی میں!

جواب

بظاہر آپ کے سوال سے معلوم ہوتاہے کہ آپ متعارض روایات کے درمیان ترجیح کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں،  اگر سائل کی مراد یہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے:

تعددِ طرق وجوہِ ترجیح میں سے ہے یا نہیں،  اس میں دو مذاہب ہیں،  پہلے ان دو مذاہب کو ذکر کیا جائے گا اس کے بعد راجح مذہب کو بیان کیا جائے گا ۔

پہلا مذہب: 

اکثر شافعیہ، احناف میں سے امام محمد، ابن الہمام اور ابو الحسن کرخی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ کثرت عدد ترجیح کے اسباب میں سے ہے، جیسا کہ ’’تقریب‘‘ میں علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :

" فإن علمنا ناسخًا قدمناه، وإلا عملنا بالراجح، کالترجیح بصفات الرواة وأکثرهم". (تقریب النواوي مع تدریب الراوي، النوع السادس والثلاثون: معرفة مختلف الحدیث وحکمه،  ۱۔۴۷۸، ط:قدیمی کتب خانہ )

اسی طرح ’’تدریب‘‘ میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے وجوہِ ترجیح  کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

"کثرة الرواة کما ذکره المصنف؛ لأن احتمال الکذب والوهم علی الأکثر أبعد من احتماله علی الأقل". (تدریب الراوي، المرجع السابق)

اسی طرح ’’الکفایۃ‘‘ میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے وجوہِ ترجیح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

’’ویرجح بکثرة الرواة لأحد الخبرین؛ لأن الغلط عنهم والسهو أبعد وهو الأقل أقرب". (الکفایة في علم الروایة، باب القول في ترجیح الأخبار :  ۳۷۴، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

علامہ حازمی رحمہ اللہ نے ’’الاعتبار‘‘ میں فرمایا :

’’کثرة العدد في أحد الجانبین وهي مؤثرة في باب الروایة؛ لأنها تقرب ممایوجب العلم وهو التواتر‘‘. (الاعتبار في الناسخ والمنسوخ، الوجه الأول من وجوه الترجیحات، ص: ۱۱، ط: مطبعة الأندلس)

دوسرا مذہب :

اکثر احناف اور بعض شوافع کا مذہب یہ ہے کہ کثرتِ عدد جب تک شہرت یا تواتر کی حد تک نہ پہنچے تب تک وہ قوت کی دلیل نہیں ہے، جیسا کہ علامہ حازمی رحمہ اللہ نے فرمایا :

’’وقال بعض الکوفیین کثرة الرواة لا تأثیر لها في باب الترجیحات؛ لأن طریق کل واحد منهما غلبة الظن فصار کشهادة الشاهدین مع شهادة الأربعة‘‘. (الاعتبار في الناسخ والمنسوخ، الوجه الأول من وجوه الترجیحات، ص: ۱۱ ، ط: مطبعة الأندلس)

اسی طرح عبدالعزیز بخاری رحمہ اللہ اصول بزدوی  کی شرح ’’کشف الاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’لایعتبر القلة والکثرة؛ إذ الاعتبار فیه للتاثیر لا للقلة والکثرة‘‘. (کشف الأسرار، باب الترجیح، القسم الرابع من بیان الفاسد من وجوه الترجیح :۴۔۱۷۳ ، ط: قدیمی کتب خانہ )

مذہبِ راجح :

علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے  ’’الاجوبۃ الفاضلۃ‘‘ میں جمہور کے مذہب کو راجح قراردیا ہے، فرماتے ہیں:

’’والذي یقتضیه رأي المنصف، ویرتضیه غیر المتعسف هو اختیار ما علیه الأکثر، وأنه بالنسبة إلی الأول أظهر‘‘. (الأجوبة الفاضلة، جواب السؤال السابع، ص :۲۰۸ ، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیة)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دوسرا مذہب (اکثر احناف اور بعض شوافع کا مذہب) راجح ہے کہ محض کثرتِ عدد کسی روایت کی وجہ ترجیح نہیں بن سکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں