بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں کے درمیان عدل وانصاف


سوال

میں کراچی کا رہائشی ہوں،  چھ ماہ پہلے میں نے دوسری شادی کی ہے،  میری پہلی بیوی سے میرے تین بچے ہیں، جن کی عمر بالترتیب بیٹا 1 سال , بیٹی 4 سال کی اور برا بیٹا 8 سال کا ہے.  پہلی بیوی کی عمر قریب 30  سال ہے،  جب کہ  پہلی شادی کو 9 سال ہوچکے ہیں۔  اور دوسری بیوی ایک طلاق یافتہ خاتون اور ایک 15 سال کے بچے کی والدہ ہیں،  عمر 35 سال ہے. قریب 12 سال پہلے انہوں نے اپنے پہلے شوہر سے خلع لی تھی،  اپنی پہلی بیوی کی خواہش اور پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے دوسری شادی کا ارادہ کیا. شرعی معاملات  کی ناقص معلومات کے سبب ہم تینوں کے درمیان کچھ ایسے معاہدے ہوئے جو عملی زندگی میں شرعی تقاضوں کے شاید خلاف تھے.  جس میں ایک ہی گھر میں دن کے وقت میں ساتھ رہنا گھومنا پھرنا،  سب ساتھ میں کرنا وغیرہ شامل تھا.فی الوقت جو مشکل مجھے درپیش ہے وہ یہ کے میں ایک 3  بچوں کی والدہ اور ایک بغیر کسی بچے کی والدہ کے درمیان کیسے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کروں، جس کے لیے مجھے شرعی ماہرانہ رائے کی اشد ضرورت ہے.

 ۔۔۔ صاحب کے ایک بیان میں میں نے سنا تھا کہ  برابری صرف رات کی ہوتی ہے، لیکن رات کے کس وقت سے کب تک کوئی مخصوص ٹائم ؟ اس کے علاوہ چھٹی کا دن اور تہوار، عید، بقرہ عید وغیرہ کو کس طرح سے تقسیم کیا جائے؟  میری دوسری بیوی اپنے بزرگ والدین کی ضرورت کے لیے نوکری بھی کرتی ہیں، جس پر میرا کوئی اعتراض نہیں. مہربانی فرماکر مجھے منصفانہ تقسیم کا طریقہ کار بتادیں جو شرعی اصولوں کے عین مطابق ہو۔

جواب

واضح رہے کہ دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں واجب ہے، جماع میں برابری شرط نہیں  اور ممکن بھی نہیں، نیز رہائش میں بھی بالکل برابری اور یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، چھٹیوں کے ایام کی بھی تقسیم کرنی چاہیے، اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی۔

رات کے کسی خاص وقت کی قید نہیں،  بلکہ دونوں کی رضا مندی سے راتیں تقسیم کی جائیں، مثلاً جتنی راتیں ایک کے پاس گزارے تو دوسری کے ہاں بھی اتنی راتیں گزارے۔ دن کے وقت خبرگیری تو دونوں کی کرلینی چاہیے، تاہم جو رات جس کی باری ہو، وہ رات اسی کا حق ہے، اس لیے آفس وغیرہ کے کام سے فارغ ہوکر رات اسی بیوی کے گھر گزاریں جس کی باری ہے۔ 

باقی سوال میں جن معاملات کی طرف آپ نے اشارہ کیا، اگر اس میں شرعی حدود سے تجاوز ہوا ہے تو توبہ و استغٖفار کرلیجیے، اور آئندہ ایسے معاملات سے اجتناب کیجیے، اور دیگر معاملات میں بھی مستند علماءِ کرام سے راہ نمائی لیتے رہیے۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عائشة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه فيعدل ويقول: «اللهم هذا قسمي فيما أملك فلاتلمني فيما تملك ولاأملك». رواه الترمذي وأبوداود.  (باب القسم، الفصل الثاني، ص: 279، ط: قديمي)

دوسری حدیث میں ہے:

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط». رواه الترمذي وأبوداود".  (حوالہ بالا)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لايجور  (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانةً أحيانًا. ولايبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانًا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة، وسبع لأمة، ولو تضررت من كثرة لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها، نهر بحثًا.

(قوله: لا في المجامعة)؛ لأنها تبتني على النشاط، ولا خلاف فيه. قال بعض أهل العلم: إن تركه لعدم الداعية والانتشار عذر، وإن تركه مع الداعية إليه لكن داعيته إلى الضرة أقوى فهو مما يدخل تحت قدرته ... (قوله: بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح. أما المحبة فهي ميل القلب وهو لايملك. قال في الفتح: والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة ...  (قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانة، لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً. قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم، فهل هو واجب للزوجة؟ وفي البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً، والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم تجب عليه في الحكم". (باب القسم 3/201، 202، ط: سعيد)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں