بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں میں برابری کا حکم


سوال

میری دو بیویاں ہیں،  میری پہلی شادی کو چودہ  سال جب کہ دوسری کو پانچ سال ہو گئے ہیں الحمدللہ ،  میں باری باری رات دیتا ہوں ۔

دوسری بیوی کے اپنے پہلے شوہر سے چار بچے ہیں،  جن میں دو  بیٹے پھر ایک بیٹی اور پھر ایک بیٹا ہے ،  جن کی عمریں بالترتیب تقریباً انیس، اٹھارہ، سولہ اور پندرہ سال ہیں، دوسری سے میری ایک بیٹی ہوئی تھی جو کہ بیماری سے چھ ماہ بعد فوت ہو گئی ،  بڑا بیٹا عالم بن رہا ہے اور ہوسٹل میں رہتا ہے، باقی بچے اسکول کالج پڑ رہے ہیں،  وہ ان بچوں کی کفالت کے لیے جاب کرتی ہے،  اس کا آفس میرے آفس کے بالکل قریب ہے،  وہ آفس میرے ساتھ گاڑی میں آتی جاتی ہے،  صبح تقریباً پینتالیس منٹ اور واپسی پر رات میں تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں،  اور واپسی پر عام طور پر وہ گھر کا کھانے پکانے کا سامان خریدتی ہے جس میں پندرہ  سے تیس منٹ لگ جاتے ہیں،  پھر گھر پہنچ کر بھی ہم تقریباً پندرہ  منٹ سے  تیس منٹ تک بات چیت کرتے ہیں،  اس طرح سے کل ڈھائی گھنٹے واپسی پر لگتے ہیں،  جب کہ راستہ تقریباً شام میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا ہے۔

میرے پہلی بیوی سے چار بچے ہیں،  جن میں ایک  بیٹی پھر دو بیٹے اور پھر ایک  بیٹی ہے، جن کی عمریں بالترتیب بارہ سال، سات سال، چھ سال اور تین سال ہیں ،  میں پہلی بیوی کے پاس دوسری کی باری میں دو گھنٹہ کے لیے (نو  سے پونے گیارہ تک کے لیے) جاتا ہوں،  اس وقت میں میں کچھ بات چیت کرتا ہوں اور اگلے دن کے لیے اگر ضرورت ہو تو سامان خرید تا ہوں ،  اور بعض دفعہ کسی بچے کو پڑھاتا ہوں  یا اگر کسی کو علاج کے لیے جانا ہو تو لے جاتا ہوں۔ 

پہلی بیوی کو اس پر اعترض ہے کہ دوسری کو آفس کیوں لے کر جاتے ہیں؟ اور اس کا یہ کہنا ہے کے صبح اور شام کا وقت ملا کر تین گھنٹے پندرہ  منٹ بنتے ہیں، جب کہ آپ مجھے ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ دیتے ہیں،  وہ کہتی ہے کہ آپ میرے دن میں میرے پاس سیدھا آئیں، اور اس کے دن میں سیدھا اس کے پاس جائیں اور اس کو آفس نہ لے کر جائیں، نہ مجھے اس کے دن میں ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ دیں ۔

ایک بات یہاں یہ ذکر کرنے کی ہے کہ دوسری شادی کے شروع کے دو سال تک میں پہلی بیوی کوآفس سے واپسی پر دوسری کے دن میں دو گھنٹے دیتا تھا، لیکن دوسری کو مشکل سے پندرہ منٹ دیتا تھا ؛  کیوں کہ پہلی بیوی کے بچے چھوٹے تھے، اور ایک دم پہلی والی کے لیے سب برداشت کرنا مشکل تھا اس لیے ،  پہلے دوسری سے چھپ کر وقت دیتا تھا، لیکن جب دوسری کو پتا چل گیا تو پھر میرے والد صاحب نے اس سے کہا کے اس کے بچے چھوٹے ہیں اس کو اجازت دے دو؛ تا کہ یہ سامان لا دیا کرے اور علاج معالجہ کر لیا کرے تو دوسری نے بادل نہ خواستہ اجازت دے دی،  میں نے اللہ سے یہ دعا کی کہ  کوئی ایسی صورت پیدا کرے کہ  نہ برابری کی یہ صورت برابری میں بدل جاۓ،  پھر میری جاب اس کے آفس کے قریب ہی ہو گئی اور دوسری والی میرے ساتھ جانے آنے لگی،  جب پہلی والی نے اس پر جگھڑا کیا تو والد صاحب نے اس کو سمجھایا کہ اس کو آفس لے جانے دو یہ پیٹ سے ہے ،  دوسری کا یہ کہنا ہے کہ اگر محرم کے ہوتے ہوے بھی وہ بسوں میں دھکے کھائے اور بے حیا کنڈکٹر وں کے ہاتھ اس کو لگیں تو پھر شادی کا کیا فائدہ ؟  مزید یہ کے اگر فرض کیا کہ جس کا دن ہے اس کے گھر جایا جاۓ اور مجھے آفس نہ لے جایا جاۓ تو پھر کیوں کہ پہلی والی کے بچے ہیں تو وہ میرے دن میں بہانے سے شوہر کو بلا سکتی ہے جب کہ میرے بچے اس سے نہیں تو میں اپنے شوہر کو نہیں بلا سکتی ،  اور وہ یہ کہتی ہے کے یہ وقت تو گاڑی میں گزرتا ہے،  گاڑی کا وقت گھر کے وقت سے کیسے برابر ہو سکتا ہے، جب کہ پہلے والی کہتی ہے کہ گاڑی میں آفس آنا جانا ایک سہولت بھی ہے اور تنہائی بھی میسر ہو جاتی ہے، اپنے دل کی بات آرام سے کہی جا سکتی ہے،  کیا مندرجہ با لا صورت میں دونوں بیویوں کے درمیان وقت کی برابری ہو رہی ہے ،  یعنی پہلی بیوی کے پاس دو گھنٹے کے لیے جانا اور دوسری کو آفس لے کر جانا اور پھر مزید کچھ وقت گھر پر بھی دینا برابر ہو جاتا ہے یا نہیں ؟  یا دوسری زیادہ وقت لے رہی ہے؟  یا پہلی ٹھیک کہہ رہی ہے؟  کچھ سمجھ نہیں آتا کون صحیح ہے کون غلط ہے ؟  راہ نمائی فرمائیں تاکہ برابری ہو سکے اور حل ایسا ہو جس پر دونوں راضی بھی ہو جائیں اور اللہ کے ہاں ہماری پکڑ نہ ہو !

جواب

شریعت نے دونوں بیویوں میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ  رات گزارنے میں دونوں میں برابری ہو، لہذا رات کے اوقات میں سے ایک  کی باری کا کچھ حصہ بھی دوسری کے پاس نہ گزارے، الا یہ کہ دوسری کی طرف سے اجازت ہو۔لہذا جو وقت آپ ایک کی باری کا دوسری کے ہاں گزارتے ہیں اور بچوں کو پڑحاتے ہیں،  یا اس کے لیے سامان لاتے ہیں  اس کے لیے دوسری کی اجازت ضروری ہے۔

جو وقت گاڑی میں گزرتا ہےاگر چہ وہ تنہائی کا ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ وقت رات کا شمار نہیں ہوگا۔گھر پہنچنے کے بعد سے رات کا وقت شروع ہوگا۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ آپ اس وقت کی کچھ  تلافی  پہلی کے لیے کریں، خواہ دوسری کی اجازت سے کچھ اس کا وقت بڑھادیں ، یا کچھ خرچہ کے اضافہ سے اس کو راضی کرلیں۔

ان مسائل میں سب سے بہتر حل یہی ہے کہ دونوں کو صبر و شکر کے ساتھ رہنے کی تلقین کی جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی عادت بڑھائی جائے نہ کہ اپنے حقوق کے مطالبہ کی عادت ہو۔ ورنہ شوہر کے لیےدونوں کو خوش رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، اللہ تعالی آپ کی اس سلسلے میٰں مدد فرمائے۔

مشكاة المصابيح (2/ 964):

"وعنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه: «أين أنا غداً؟» يريد يوم عائشة، فأذن له أزواجه يكون حيث شاء، فكان في بيت عائشة حتى مات عندها. رواه البخاري".

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  اپنے مرض الوفات میں پوچھا کرتے کہ میں کل کہاں ہوں گا؟ یعنی حضرت عائشہ کے دن کا انتظار ہوتا  تھا، تو آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے  اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جس بیوی کے پاس رہنا چاہیں وہاں رہیں، تو پھر وفات تک آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے۔

مشكاة المصابيح (2/ 965):

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط» . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي".

ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 207):

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة، بل يستحب.

 (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط؛ بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لابمعنى التسوية؛ فإنها لاتلزم في النفقة مطلقاً. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي. والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا؛ فإن إحداهما قد تكون غنيةً والأخرى فقيرةً، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقاً في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنياً على اعتبار حاله (قوله: والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله: في البيتوتة؛ لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں