بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب اور ان کا نکاح


سوال

ایک شخص نے زینب سے شادی کی، پھر زینب کی بہن فاطمہ سے بھی  مسئلہ کی لاعلمی کی وجہ سے شادی کرلی اور اس بات کو 20 سال  گزرگئے،  دونوں سے اولاد بھی ہوئی  جو جوان ہوگئی، اس کی فاطمہ سے ایک بیٹی ہے، وہ اس بیٹی کی شادی فاطمہ اور زینب کی تیسری  بہن  کے بیٹے سے کرنا چاہتا ہے، آیا اس کا ایسا کرنا جائز ہے،  کیوں کہ فاطمہ سے اس کی جو اولاد ہوئی ہے وہ تو ناجائز ہے؟ براہِ کرم جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا یا بیوی کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے،  قرآنِ مجید میں ہے:﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24] اور یہ کہ (حرام ہیں تم پر کہ ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو ،لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صراحۃً اس کی ممانعت موجود ہے۔

اگر مذکورہ شخص نے ایک ہی عقد میں دو بہنوں سے نکاح کیا ہو تو   دونوں سے فی الفور علیحدگی لازم  ہے، اور اگر ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری بہن سے الگ عقد  میں نکاح کیا ہو تو  دوسری کا نکاح فاسد ہے، اس سے علیحدگی لازم ہے، تاہم  اگر اس سے کوئی اولاد ہوگئی تو اس کا نسب  اس شخص سے ثابت ہوگا۔

       صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص کے لیے  فاطمہ کی بیٹی  کا نکاح  زینب اور فاطمہ کی تیسری بہن  کے بیٹے سے کرناً شرعا جائز ہے،  اس لیے ان دونوں میں کوئی حرمت کا رشتہ نہیں ہے، فاطمہ کی اولاد کا نسب اس سے شخص سے ثابت ہے، اس لیے کہ یہ نکاح فاسد کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے، اور اس میں نسب ثابت ہوتا ہے، اگر بالفرض نسب ثابت نہ ہوتا تب بھی یہ نکاح (فاطمہ کی بیٹی کا تیسری بہن کے بیٹے سے نکاح) درست تھا، باقی مذکورہ شخص  نے اگر فاطمہ سے علیحدگی اختیار نہیں  کی تو  اس پر شرعاً لازم ہے کہ وہ فی الفور  فاطمہ  سے علیحدگی  اختیار کرے ، اور اب تک جو اس سے تعلقات قائم کیے ہیں اس پر توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 277):
’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي‘‘.
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں