بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائیوں کا دو بہنوں سے نکاح ہوا اور وطی بالشبہ ہوگئی تو کیا حکم ہے ؟


سوال

 دو بھائیوں نےبیک وقت دوبہنوں سے شادی کی۔ شب زفاف میں وطی بالشبہ ہوگیا۔اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟نیز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ایسا واقعہ پیش آیا تو اس وقت اس نکاح کو برقرار رکھاگیا ، جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانے میں  آپ کا فیصلہ اس سے الگ تھا ۔

جواب

دو بھائیوں کا دو بہنوں سے بیک وقت عقد ہوا ، اور رخصتی میں عورتیں ادل بدل ہوگئیں اس بارےمیں بہترصورت فقہاء نے یہی لکھی ہے کہ جس عورت کا جس بھائی سے عقد ہوا تھا اس سے طلاق دلوائی جائے، او رہرایک اپنا مہر معاف کردے ، پھر جو عورت جس بھائی کے پاس غلطی سے چلی گئی اور مغالطہ میں تعلق بھی قائم ہوگیااس کا اسی مرد سے عقد کردیاجائے،اس میں عدت گزارنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔

اسی نوعیت کا واقعہ کتب فقہ میں مذکور ہے، جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے کوفہ کے اندر ایک دعوت ولیمہ میں پیش کیاگیا تھا،اور امام صاحب رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا فیصلہ فرمایاتھا۔اس مجلس میں محدث سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی تشریف فرماتھے جنہوں نے اس مسئلہ کے متعلق فرمایاتھاکہ :''حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جب اس طرح کا مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے  فیصلہ فرمایاتھا کہ اس سے نکاح پر اثر نہیں پڑتا البتہ دونوں پر مہرکی ادائیگی لازم ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے دونوں بھائیوں کو بلاکر ان سے یہ دریافت کیاکہ تم نے جس عورت کے ساتھ (غلطی سے) رات  گزاری ہے ، اگر وہی عورت تمہارے نکاح میں رہنے دی جائے  تو کیا تمہیں قبول ہے ؟دونوں نےجواب دیا کہ : ہاں! امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: تم دونوں اپنی بیویوں کو جن سے تمہارا نکاح پڑھایا گیا تھا، اسے طلاق دے دو اورہر شخص اس سے نکاح کر لے جو اس کے ساتھ رات کو (غلطی سے )ہم بستر رہ چکی ہے۔

مذکورہ مسئلہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ نے جو جواب دیا تھاشرعی اعتبار سے وہ جواب بھی درست تھا، جیساکہ یہ فیصلہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کیاگیا،مگر اس صورت میں وطی بالشبہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو عدت کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑتا،نیز چونکہ ہر ایک عورت سے وطی بالشبہ ہوچکی تھی ، ممکن ہے کہ ہر ایک مرد کو یہ خیال ناگوار گزرتا۔اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جو فیصلہ فرمایا اس میں عدت کی حاجت بھی نہیں رہی،نیز اس فیصلہ کی وجہ سے دونوں عورتیں جہاں رات گزارچکی تھیں انہیں مردوں کے نکاح میں چلی گئیں ، تاکہ کسی کے ذہن میں الجھن یاناگواری کااحساس باقی نہ رہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب حكاية أبي حنيفة في الموطوءة بشبهة   لطيفة حكي في المبسوط رجلا زوج ابنيه بنتين فأدخل النساء زوجة كل أخ على أخيه فأجاب العلماء بأن كل واحد يجتنب التي أصابها وتعتد لتعود إلى زوجها وأجاب أبو حنيفة رحمه الله تعالى بأنه إذا رضي كل واحد بموطوءته يطلق كل واحد زوجته ويعقد على موطوءته ويدخل عليها للحال لأنه صاحب العدة ففعلا كذلك ورجع العلماء إلى جوابه ''۔(3/507-طبقات الحنفیۃ 1/480)-(فتاوی محمودیہ 11/38)-(عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان ،للحافظ المورخ محمد بن یوسف الصالحی،ص:248،تحقیق ودراسۃ  ملاعبدالقادر الافغانی)-(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ ،للامام الفقیہ القاضی ابی عبداللہ حسین بن علی الصیمری،ص:30،ط:عالم الکتب بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں