بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائی (جن کا کھانا وغیرہ مشترکہ خرچے سے چلتاہو) نے مل کر قربانی کی تو کیا دونوں کے درمیان حصے کے برابر گوشت کی تقسیم لازم ہے؟


سوال

دو بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، گھر کے سودا سلف میں برابر کے پیسے ملاتے ہیں اور ایک ساتھ ہی کھانا پکاتے ہیں اور انہوں نے مل کر اجتماعی قربانی کی ہے تو اس صورت میں بھی گوشت کو تول کر حصہ کے برابر تقسیم کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اسی طرح دو بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں گھر کے سودا سلف میں برابر کے پیسے ملاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں تو الگ الگ کھانا پکالیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں تو ایک ساتھ پکالیتے ہیں تو یہ بھائی اجتماعی قربانی کی صورت میں گوشت کو تول کر حصے کے برابر تقسیم کریں گے یا عام کھانوں کی طرح جب جو چاہے وہ اپنی مرضی سے گوشت پکا کر کھاسکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اجتماعی قربانی کے جانور کا گوشت شرکاء کے درمیان  تقسیم کرنا شرعاً لازم نہیں ہے، البتہ اگر تقسیم کرنا ہو تو وزن کر کے برابری کے ساتھ تقسیم کرنا لازم ہے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا اگر دو بھائی مل کر اجتماعی قربانی کرتے ہیں اور گوشت تقسیم کیے بغیر گھر میں لاکر اکٹھا رکھ دیتے ہیں اور پھر اسی گوشت کو  پکاکر ایک ساتھ کھاتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس صورت میں گوشت کو باقاعدہ تول کر  حصوں کے موافق تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اسی طرح اگر دونوں بھائیوں کا کھانا کبھی ساتھ پکتا ہو اور کبھی الگ الگ پکتا ہو تو اس صورت میں بھی اگر سارا گوشت لاکر اکٹھا گھر میں رکھ دیا جائے، آپس میں تقسیم نہ کیا جائے اور کبھی اس گوشت کو پکا کر ساتھ کھایا جائے اور کبھی الگ الگ اس گوشت میں سے  اپنے لیے پکایا جائے تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس صورت میں بھی دونوں بھائیوں کے لیے اجتماعی قربانی کے گوشت کو تول کر حصوں کے موافق تقسیم کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ عام کھانوں کی طرح وہ جب چاہیں آپس کی رضامندی سے اس مشترکہ گوشت کو اپنی مرضی سے پکا کر بھی کھا سکتے ہیں۔

لیکن اگر دونوں بھائیوں کا کھانا مستقل الگ پکتا ہو اور دونوں گوشت کو گھر لاکر اپنا اپنا حصہ الگ کر کے رکھنا چاہیں تو پھر اس مشترکہ گوشت کو برابر برابر تول کر  حصوں کے موافق تقسیم کرنا ضروری ہوگا، اندازے سے تقسیم کر کے الگ کرنا جائز نہیں ہوگا، چاہے دونوں بھائی کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ اس صورت میں بھی اگر گوشت کی تقسیم کے وقت قربانی کے جانور کے دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے، کھال وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے  سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا،  بشرطیکہ جانور کے دیگر اعضاء ہر حصے میں ڈالے جائیں یا جس حصہ میں گوشت کم ہو اس حصہ میں ڈالے جائیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 317):

"ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه.

 (قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لاتشترط؛ لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لايتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله: لا جزافاً) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلايجوز تمليكه مجازفة.

وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لايحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لاتصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لايصح ولايحل لفساد المبادلة خلافاً لما بحثه في الشرنبلالية  من أنه فيه بمعنى لايصح ولا حرمة فيه (قوله: إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد، عناية". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں