بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دن میں لاٹھی سے حملہ کرنے والے سے قصاص لینا


سوال

اگرایک شخص نے دوسر ے شخص پر شہر کے اندر دن میں لاٹھی سے حملہ کردیا اور مدِّمقابل نے اپنا دفاع کرتے ہوئے حملہ آور کو قتل کردیا ، تو فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے گا؛ کیوں کہ دن کے وقت مدد ملنے کی امیدہوتی ہے،لیکن موجودہ حالات میں بجائے اس کے کہ کوئی کسی کی مدد کو آئے ،لوگ اس کی ویڈیو بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں، اس مسئلہ میں غالباً صاحبین رحمہما اللہ کا موقف عدمِ قصاص کا ہے تو کیا صاحبین رحمہما اللہ کے مسلک پر عمل کیا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرکوئی شخص دوسرے شخص  پر شہر کے اندر بڑی  لاٹھی سے حملہ کرتا ہے اور مدِّمقابل کو مدد ملنے کی امید نہ ہو اور اس نے اپنا دفاع  کرتے ہوئے حملہ آور کو قتل کردیا تو اسے قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا، بشرطیکہ حملہ آور کا مقصد اسے مارنا ہو اور وہ لاٹھی ایسی ہو جس سے  موت واقع ہوسکتی ہو۔

"(ويجب قتل من شهر سيفًا على المسلمين) يعني في الحال، كما نص عليه ابن الكمال حيث غيّر عبارة الوقاية فقال: ويجب دفع من شهر سيفًا على المسلمين ولو بقتله إن لم يمكن دفع ضرره إلا به، صرح به في الكفاية: أي لأنه من باب دفع الصائل، صرح به الشمني وغيره، ويأتي ما يؤيده (ولا شيء بقتله) بخلاف الحمل الصائل. (ولا) يقتل (من شهر سلاحًا على رجل ليلًا أو نهارًا في مصر أو غيره، أو شهر عليه عصًا ليلًا في مصر أو نهارًا في غيره فقتله المشهور عليه)، وإن شهر المجنون على غيره سلاحًا فقتله المشهور عليه (عمدًا تجب الدية) في ماله". (رد المحتار، کتاب الجنايات، فصل فيما يوجب القود 6 / 545 ط:سعيد)

"(ومن شهر عصًا نهارًا في مصر فقتله المشهور عليه قتل به)؛ لأن العصا خفيفة، والغوث غير منقطع في المصر، فكان بالقتل معتديًا، وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى ظاهر؛ لأنه ليس كالسلاح عنده، وقيل: عندهما يحتمل أن يكون على الخلاف المذكور في العمد؛ لأنه كالسلاح عندهما حتى يجب القصاص بالقتل به، وقد بيناه، وقيل: هذا في الزمان المتقدم، أما اليوم إذا شهر عليه العصا في مصر وقتله لا شيء عليه؛ لأن الناس تركوا الإغاثة والغوث". (البحر الرائق، كتاب الجنايات، باب ما يوجب القصاص 8 / 344 ط: دار المعرفة)

"( ويجب القصاص على قاتل من شهر عصًا ) نهارًا في مصر؛ لأنه يلبث، فيمكن أن يلحقه الغوث، ويفرق بين العصا التي تلبث والتي لاتلبث بالصغر والكبر، فعند الإمامين العصا التي لاتلبث مثل السلاح في الحكم حيث لم يفرق فيها بين الليل والنهار والمصر وغيره". (مجمع الأنهر، كتاب الجنايات، باب ما يوجب القصاص، 8 / 434 ط:دار الكتب العلمية) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144104200062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں