بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دلہن کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنا/ نابالغ بچوں کے عمرے کے مسائل


سوال

 1) شادی میں رخصتی کے وقت دلہن کو قرآنِ  کریم کے سائے میں رخصت کرنے کی رسم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ایسا کرنا خدا نخواستہ بدعت تو نہیں؟

2) نابالغ بچوں کے  لیے عمرہ کے کیا احکامات ہیں؟ احرام اور حلق کے حوالے سے راہ نمائی فرمادیں.

جواب

1- کسی جگہ  اس کا التزام نہ ہو اور ثواب نہ سمجھا جائے تو تبرکاً ایسا کیا جاسکتاہے، البتہ اگر کہیں رسم ہو  تو یہ قابلِ ترک ہے،  جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے،  اور اس کا التزام کرنا یا اس کو ثواب سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔

2 -  واضح رہے کہ نا بالغ بچے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک سمجھ دار بچے جو خود نیت کر سکتے ہیں اور تلبیہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور عمرہ کے افعال ادا کرنے کی سمجھ رکھتے ہیں؛ ایسے نابالغ بچوں کا حکم یہ ہے کہ وہ بڑوں کی طرح اپنی زبان سے نیت کر کے تلبیہ پڑھ کر احرام باندھیں گے، اور عمرہ کے جتنے افعال کرنے پر وہ قادر ہوں وہ تمام افعال اپنے ولی کے ساتھ مل کر خود ادا کریں گے اور جو افعال وہ خود ادا نہیں کر سکتے وہ ان کی طرف سے ولی ادا کرے گا، البتہ طواف کے بعد کی دو رکعت وہ خود ادا کریں گے، ولی ان کی طرف سے ادا نہیں کرسکتا۔ جیساکہ غنية الناسك میں ہے:

’’فالمميز لايصلح النيابة عنه في الإحرام و لا في أداء الأفعال إلا فيما لايقدر عليه؛ فيحرم بنفسه و يقضي المناسك كلها بنفسه و يفعل كما يفعل البالغ‘‘. (باب الإحرام، فصل في إحرام الصبي، ص: ٨٣ ، ٨٤، ط: إدارة القرآن)

دوسرے ناسمجھ بچے جو نہ احرام کی سمجھ  بوجھ رکھتے ہیں اور نہ نیت کرسکتے ہیں اور نہ تلبیہ پڑھ سکتے ہیں؛ ان کے احرام و عمرہ یا حج کا حکم یہ ہے کہ انہیں نہلا کر احرام کی دو چادریں لپیٹ دی جائیں اور لڑکی ہو تو احرام کے طور پر لباس تبدیل کیا جائے گا اس کے بعد اس کا والد یا ولی اس کی طرف سے نیت کر کے تلبیہ پڑھ لے، اس طرح وہ نا سمجھ بچہ/ بچی محرم شمار ہوگا/ ہوگی، اب ولی بچہ کو احرام کے ممنوعات سے بچاتا رہے اور حرم میں بچہ / بچی کو اپنے ساتھ لے کر عمرے کے تمام افعال ادا کرے، اور طواف اور سعی سے پہلے اپنی نیت کے بعد اپنے نا سمجھ بچہ / بچی کی طرف سے بھی طواف و سعی کی نیت کرے، اور اگر طواف اور سعی میں ناسمجھ بچہ/ بچی کو ساتھ نہیں رکھا تو اپنے طواف و سعی کے بعد اس کی طرف سے طواف و سعی خود ادا کرے، بہر صورت طواف کے بعد کی دو رکعت واجب الطواف ایسے نا سمجھ بچوں پر سے ساقط ہوجائیں گی، جس کی وجہ سے ان کی طرف سے دو رکعت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

نیز ہر دو قسم کے بچوں کو ممنوعات احرام سے بچایا جائے گا، تاہم اگر ان سے کوئی غلطی ہوگئی یا اپنا اِحرام کھول دیا یا خوش بو  لگالی وغیرہ وغیرہ تو اس پر کسی قسم کی جزا واجب نہیں ہوگی۔ جیساکہ غنية الناسك میں ہے:

’’أما غير المميز فلا يصح أن يحرم بنفسه؛ لأنه لا يعقل ولا يقدر التلفظ بالتلبية، و هما شرطان في الإحرام، كما مر، و كذا لا يصح طوافه لإشتراط النية له أيضاً، بل يحرم له وليه، و الأقرب أولی ... و ينبغي للولي أن يجرده قبل الإحرام و يلبسه إزارا و رداء، و إذا أحرم له ينبغي أن يجنبه من محظورات الإحرام، ولو ارتكب محظوراً لا شيء عليهما، ويقضي به المناسك كلها، و ينوي عنه حين يحمله في الطواف، و جاز النيابة عنه في كل شيء إلا في ركعتي الطواف فتسقط‘‘. (باب الإحرام،فصل في إحرام الصبي، ص: ٨٣ ، ٨٤ ،ط: إدارة القرآن) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں